اقربا پروری - سماج کا ایک حصہ

image

آج میں نے جس سماجی مسئلے کا چناؤ کیا ہے وہ ہے اقربا پروری- پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور بہت سے مسائل کا شکار ہے- آج کل دیگر مسائل کے ساتھ جو بڑا مسئلہ ہے وہ ہے اقربا پروری۔ اقربا  پروری کو اگر آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو اسکا مطلب ہے خویش نویزی یا اپنوں کو نوازنا۔ آج اگر ہم اپنے ارد گرد ایک نظر دیکھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے جس شخص کو کوئی عہدہ ملتا ہے چاہے وہ چھوٹی نوعیت کا ہو یا کوئی بڑا عہدہ ہو وہ میرٹ کی دھجیاں بکھیرتا ہوا اپنوں کو نوازنے کا سلسلہ شروع کر دیتا ہے- آج کل کے اس جدید دور میں جو نوجوان محنت کر کے چار چار سال, پانچ پانچ سال لگا گے ڈگریوں کی تکمیل کرتے ہیں اور جب اپنی پریکٹیکل زندگی کی ابتداء کرتے ہیں تو انھیں صرف اور صرف زمانے کی ٹھوکریں اور دھکے ہی نصیب ہوتے ہیں- اس کے برعکس عہدوں والے لوگ اپنے قریبی لوگوں کو نوازنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔

جس وقت بھی جس نظام میں اقربا پروری آئی ھے تو نظام میں خرابی نے جنم لیا ہے خواہ وہ دینی اداروں کا نظام ہو یا دنیاوی۔ ہمارے معاشرے میں جب کسی کو عہدہ ملتا ہے تو وہ عموماً یہ چاہتا ہے کہ میرے تحت کام کرنے والے میرے قریبی اور میرے ہم خیال خوشامدی لوگ ہوں تاکہ میرا عہدہ دیرپا اور برقرار رہے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اہل لوگوں کے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے معاشرے میں نااہلی اور نالائقی دندناتی پھرتی ھے اور نظام بربادی کی راہ کا مسافر بن جاتا ہے اور اگر اقربا پروری کو نہیں بلکہ اہلیت کو پیش نظر رکھا جائے تو نظام بہتری اور کامیابی کی راہ کا مسافر بنے، اور جن لوگوں نے اقربا پروری کو نہیں بلکہ اہلیت کو ترجیح دی ہے ان کے دور میں نہ تو نظام خراب ہوا ہے اور نہ ہی کوئی فتنہ پیدا ہوا ہے۔ اقربا پروری کو ترک کرکے جب اہل لوگوں کو ترجیح دی گئی جس کا نتیجہ میں نظام میں بہتری کو عروج ملا اور معاشرے میں عدل و انصاف قائم ہوا- لہذا اقربا پروری کو پیچھے چھوڑ کر اہل لوگوں کو مواقع فراہم کیے جائیں۔ اگر ایسا نظام نہ بنایا گیا تو ملک تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ جائے گا- کسی نے کیا خوب کہا کہ

برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا 

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا؟

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ظلم اور ناانصافی کی ان زنجیروں کو توڑ کر صرف اور صرف میرٹ کے حصول کو فروغ دیا جائے تاکہ قابل لوگ آگے بڑھ سکیں اس طرح نہ صرف ملکی نظام بہتر ہوگا بلکہ آنے والے نوجوانوں کو بھی آگے بڑھنے کے مواقع ملیں گے۔ میری حکام بالا سے عاجزانہ درخواست ہے کہ خدارہ نظام سے اس ناسور کا خاتمہ کیا جائے اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو بہتر مواقع فراہم کئے جائیں۔ اللہ کرے میرا پیارا ملک ترقی کی جانب گامزن رہے اور کوئی میلی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکے۔ آخر میں اپنے جان سے پیارے وطن کیلئے یہی عرض کرنا چاہوں گا کہ

یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں

یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے

اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو