جہلم کی حسین ترین تحصیل سوہاوہ میں شہاب الدین غوری کا مدفن

image

شہاب الدین غوری 1149ء کو پیدا ہوئے، سلطنتِ غوریہ کے دوسرے اور آخری سلطان کا دورِ حکومت صرف چار سال رہا ہے۔ سلطان غوری کی فتوحات میں ملتان، اوچ شریف، لاہور، دیبل اور پشاور شامل ہیں۔

سوہاوہ: ضلع جہلم جغرافیائی اور تاریخی اہمیت کا حامل شہر ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے بیشمار معدنیات، صحت افزاء مقامات اور کئی تاریخی مقامات سے مالامال کیا ہے۔ جہلم کی حسین ترین تحصیل سوہاوہ جس میں سرسبز پہاڑ اور ان پہاڑوں میں نایاب جانور جن میں اڑیال، چیتے اور کئی انمول پرندے جیسا کہ تیتر، چکور اور کالا تیتر وغیرہ بھی پائے جاتے ہیں۔ اسی پہاڑی سلسلے کی بیچوں بیچ ایک مسلمان بادشاہ کی آخری آرام گاہ بھی ہے، جس نے اسماعیلی فدائیوں کا خاتمہ کرے اس زمین کو گندگی سے پاک کیا تھا۔ شہاب الدین سلطنت 1149ء کو افغانستان کے شہر غور میں پیدا ہوئے۔ وہ سلطنتِ غوریہ کے دوسرے اور آخری حکمران تھے، جن کی حکومت 1202ء سے 1206ء تک رہی ہے۔ شہاب الدین محمد غوری کا تعلق سور پشتون قبیلے سے تھا۔ سیف الدین ثانی کے انتقال کے بعد غیاث الدین غوری سلطنت غوریہ کے تخت پر بیٹھے اور انہوں نے 567ھ بمطابق 1173ء میں غزنی کو مستقل طور پر فتح کرکے شہاب الدین محمد غوری جس کا اصل نام معز الدین محمد غوری ہے، غزنی میں تخت پر بٹھایا۔ غیاث الدین نے اس دوران ہرات اور بلخ بھی فتح کرلئے اور ہرات کو اپنا دار الحکومت بنایا تھا۔

سلطان شہاب الدین غوری اگرچہ اپنے بھائی کے نائب تھے، لیکن انہوں نے غزنی میں ایک آزاد حکمران کی حیثیت سے حکومت کی اور موجودہ پاکستان اور شمالی ہندوستان کو فتح کرکے تاریخ میں مستقل مقام پیدا کر لیا۔ 598ھ میں اپنے بھائی کے انتقال کے بعد وہ پوری غوری سلطنت کا حکمران بن گئے۔ شہاب الدین محمد غوری کی فوجی کارروائیاں موجودہ پاکستان کے علاقے سے شروع ہوئیں اور وہ درہ خیبر کی بجائے، درہ گومل سے پاکستان میں داخل ہوئے۔ شہاب الدین غوری نے سب سے پہلے ملتان اور اوچ شریف پر حملے کیے جو غزنویوں کے زوال کے بعد ایک بار پھر اسماعیلی فرقے کا گڑھ بن گئے تھے۔ یہ اسماعیلی ایک طرف مصر کے فاطمی خلفاء کے ساتھ اور دوسری طرف ہندوستان کے ہندوؤں سے قریبی تعلق قائم کیے ہوئے تھے۔ غور کے حکمران عام مسلمانوں کی طرح عباسی خلافت کو تسلیم کرتے تھے اور اسماعیلیوں کی سرگرمیوں کو مسلمانوں کے مفادات کے خلاف سمجھتے تھے۔ محمد غوری نے 571ھ بمطابق 1175ء میں ملتان اور اوچ دونوں فتح کرلئے اس کے بعد 575ھ بمطابق 1179ء میں محمد غوری نے پشاور اور 576ھ بمطابق 1182ء میں دیبل کو فتح کرکے غوری سلطنت کی حدود کو بحیرہ عرب کے ساحل تک بڑھا دیں۔ لاہور اس کے نواح کا علاقہ ابھی تک غزنوی خاندان کے قبضے میں تھا جن کی حکومت غزنی پر جہانسوز کے حملے کے بعد لاہور منتقل ہو گئی تھی۔ شہاب الدین محمد غوری نے 582ھ بمطابق 1186ء میں لاہور پر قبضہ کرکے غزنوی خاندان کی حکومت کو بالکل ختم کردیا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب سلجوقیوں کے بعد خراسان اور ترکستان میں خوارزم شاہی خاندان کی حکومت قائم ہو گئی تھی۔ غوریوں کی اس خاندان سے مسلسل لڑائیاں رہتی تھیں۔ غیاث الدین کے بعد شہاب الدین کے زمانے میں یہی لڑائیاں جاری رہیں۔ ان لڑائیوں کے سلسلے میں شہاب الدین 601ھ میں خوارزم تک پہنچ گیا لیکن وہاں اس کو شکست ہوئی اور یہ مشہور ہو گیا کہ محمد غوری جنگ میں کام آگیا۔ اس خبر کے پھیلنے پر پنجاب کے کھوکھروں نے بغاوت کردی۔ محمد غوری فوراً پنجاب آیا اور بغاوت فرو کی لیکن بغاوت فرو کرنے کے بعد جب وہ واپس جا رہا تھا تو دریائے جہلم کے کنارے ایک اسماعیلی فدائی نے حملہ کرکے انہیں شہید کر دیا۔ ان کا مقبرہ ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوہ میں چکوال موڑ جی ٹی روڈ سے 17 کلومیٹر کے فاصلے پر کوٹ دھمیک گاؤں میں واقع ہے۔ شہاب الدین محمد غوری کی شہادت کے ساتھ غوری خاندان کی حکومت بھی ختم ہو گئی۔ 

سلطان شہاب الدین غوری کی قبر کے بارے میں سب سے پہلے جنرل شیر علی خان نے دریافت کیا کہ انکی قبر پاکستان میں اس مقام پر واقع ہے کیونکہ بقول انکے شہاب الدین غوری انکے خواب میں آتے تھے اور ان کی قبر کی زیارت بھی ان کو متعدد بار خواب میں ہوچکی تھی، مگر ان کو جگہ کا علم نہ تھا کہ یہ کونسی جگہ ہے، چنانچہ انھوں نے اس پر اپنی محنت کی اور ان کی قبر کو تلاش کرنا شروع کر دیا کہ یہ کس جگہ موجود ہے، اور آخر انکی محنت رنگ لائی اور وہ کوٹ دھمیک پہنچ گئے۔ شیر علی کو خواب میں جب شہاب الدین کی زیارت ہوئی اور وہ 1985ء میں جب یہاں آئے تو انہوں نے مقامی لوگوں سے رابطہ کیا، تو معلوم ہوا کہ واقعی اس قبر کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ غوری کی قبر ہے لیکن غوری کے بارے میں جانتے نہ تھے، کہ یہ غوری کون ہے۔ جنرل شیر علی جب قبر پر گئے تو یہ وہ ہی قبر تھی جو خواب میں قبر دیکھ چکے تھے اس لیے انھوں نے پہچان لی کہ یہ ہی وہ قبر ہے۔ اس کے بعد انھوں نے ڈاکٹر قدیر خان کو اس جگہ تب لانے کا سوچا کہ جب بھارت نے پرتھوی میزائل کا تجربہ کیا، تو پرتھوی کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ ہندوستان میں دہلی اور اجمیر کا راجہ تھا، جسے شہاب الدین غوری نے شکست دی تھی اس کے نام پر میزائل کا نام رکھا گیا تھا چنانچہ انہوں نے پرتھوی میزائل کے جواب میں غوری میزائل بنایا تھا۔