منڈی بہاوالدین تاریخ کے آئینے میں

image

منڈی بہاؤ الدین کا پرانا نام پنڈی بہاؤ الدین، صوفی بہاوالدین صاحب نے 1506ء میں پنڈی شاہجہانیاں سے آکر اس جگہ کو آباد کیا تھا۔ انیسویں صدی منڈی بہاوالدین انگریزوں کے قبضے میں آیا، راجہ پورس کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا، سکندرِ اعظم اور راجہ پورس کی 326 قبلِ مسیح اسی علاقے میں ہوئی تھی۔

منڈی بہاوالدین: صوفی بزرگ بہاؤ الدین 1506ء میں پنڈی شاہجہانیاں سے آکر جس جگہ آباد ہوئے، اس جگہ کو پنڈی بہاؤ الدین کا نام دے دیا گیا، جسے آج کل پرانی پنڈی کہتے ہیں۔ 1857ء میں جب انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کی حکومت کا تختہ الٹ کر ہندوستان پر قبضہ کیا تو منڈی بہاوالدین بھی انگریزوں کے زیرِ تسلط آگیا تھا۔ 1902ء میں انگریز سرکار نے اس علاقے کو چک بندی کے تحت منظم کیا اور نہر لوئر جہلم کا میگا پروجیکٹ دے کر اس علاقے میں کاشت داری کو جلا بخشی تھی۔ اس علاقے کو 51 چکوں میں تقسیم کیا گیا، جس کا مرکز 51 چک تھا، جس کو 1920ء میں انگریز حکومت کی جانب سے منڈی بہاوالدین کا نام دیا گیا، 1923ء میں ایک بڑے منصوبے کے تحت قبصے کو کشادہ گلیوں اور سڑکوں کے ساتھ تعمیر کیا گیا۔ انیسویں صدی میں یہاں پر غلہ منڈی کے قیام کے بعد منڈی بہاوالدین میں سکھ، ہندو اور مسلمان تاجروں نے یہاں آکر بسنے لگے۔ 

سال 1916ء میں انگریزوں نے عسکری اور معاشی ترقی کے لئے پنڈی بہاؤ الدین ریلوے اسٹیشن کا قیام کیا، 1924ء میں جس کا نام بدل کر منڈی بہاوالدین اسٹیشن رکھ دیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق 1937ء میں منڈی بہاوالدین کو ٹاؤن کمیٹی کا اور 1941ء میں میونسپل کمیٹی کا درجہ دیا گیا، بعد ازاں 1946ء میں 9 دروازے اور چار دیواری تعمیر کر دی گئی تھی۔ تقسیمِ ہند کے وقت یہاں پر مقیم ھندو اور سکھ بھارت چلے گے، جبکہ بھارت سے نقل مکانی کر کے پاکستان آنے والے بہت سے مسلمانوں کو منڈی بہاوالدین میں آباد کیا گیا تھا۔ یاد رہے کی 1960ء میں منڈی بہاوالدین کو سب ڈویژن کا درجہ دیا گیا، 1963ء میں رسول بیراج اور رسول قادرآباد لنک نہر کا منصوبہ شروع کیا گیا، جو 1968ء میں مکمل ہوا، اس منصوبے نے منڈی بہاوالدین کو کاروباری مرکز بنا دیا۔ 

سال 1993ء میں وزیر اعلئ پنجاب میاں منظور احمد وٹو نے منڈی بہاوالدین کو ضلع کا درجہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ منڈی بہاوالدین کے شمال مغرب میں دریائے جہلم اسے ضلع جہلم سے الگ کرتا ہے جبکہ جنوب مشرق سے دریائے چناب اسے گجرات، گوجرانوالہ اور حافط آباد سے علیحدہ کرتا ہے۔ مغرب میں ضلع سرگودھا واقع ہے۔ منڈی بہاؤ الدین کا رقبہ 2673 مربع کلو میٹر اور سطح سمندر سے بلندی 204 میٹر ہے۔ ضلع منڈی بہاؤ الدین میں تین تحصیلیں منڈی بہاوالدین، پھالیہ اور ملکوال ہیں۔ ضلع کے بڑے قصبے چیلیانوالہ، گوجرہ، ہیلاں، کٹھیالہ شیخاں، مانگٹ، مونگ، میانوال رانجھا، پاہڑیانوالی، قادراباد، رسول، رگهہ رائیکہ اور واسو ہیں۔ ضلع منڈی بہاؤ الدین میں کاشت کی جانے والی اہم فصلیں گندم، دھان، گنا، آلو، تمباکو ہیں، منڈی بہاوالدین کے تمباکو پاکستان بھر میں مشہور ہے۔

ضلع بھر میں صنعتی یونٹوں کی تعداد نو سو کے قریب ہے۔ منڈی بہاوالدین میں 2 شوگر ملز اور سینکڑوں کی تعداد میں رائس ملز اور فلور ملز ہیں۔ منڈی بہاوالدین کا چاول دنیا بهر میں مشہور ہے شہر کے نزدیک شاہ تاج شوگر مل واقع ہے جس کا رقبہ بیس ایکڑ پر محیط ہے۔ اس کا شمار علاقے کی بڑی ملوں میں ہوتا ہے، معیاری چینی تیار کر کے ملکی ضروریات کو پورا کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رہی ہے۔ ضلع منڈی بہاؤ الدین میں جٹ، گجر، سید، مرزا، آرائیں کے علاؤہ کئی اقوام آباد ہیں، جن اکثریت جٹ برادری کی ہے، جٹ برادری کی شاخوں میں چدھڑ، گوندل، وڑائچ، تارڑ اور بوسال کی اکثریت ہے۔ یہاں کی مشہور شخصیات میں ملک کے نامور افسانہ نگار مستنصر حسین تارڑ، ممتاز تارڑ سابق وفاقی وزیر رہ چکے ہیں، نذر محمد گوندل جو وزیر خوراک بھی رہ چکے ہیں اور دوسری مشہور شخصیت ناصر اقبال بوسال ہیں ان کو کنگ آف دی بار بھی کہتے ہیں جو ان کے دادا مانک بوسال کو انگریزوں نے خطاب دیا تھا۔ 

منڈی شہر کو وکیلوں اور ججوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ یہاں زیادہ تر طالب علم وکالت کی طرف رغبت رکھتے ہیں اور اس شہر کے وکیل آپ کو تقریباً ہر جگہ ملیں گے۔ اس شہر میں ویسے تو بہت سے پرائیویٹ اور سرکاری تعلیمی ادارے موجود ہیں لیکن گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی جو اس شہر کے ساتھ ہی رسول کے مقام پر موجود ہے وہ جگہ کے لحاظ سے بھی سب سے بڑا اور عمر کے لحاظ سے بھی سب سے قدیم کالج ہے جو پاکستان بننے سے بھی پہلے وجود میں آیا تھا۔