صُحبتِ صالِـح تُرا صالِـح کُـنَد

image

صُحبتِ صالِـح تُرا صالِـح کُـنَد   صحبتِ طالِـح تُرا طالِـح کُـنَد

مولانا روم رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے سے انسان اچھا بن جاتا ہے جبکہ برے لوگوں کی صحبت برا بنا دیتی ہے۔ یعنی کہ انسان کی شخصیت پر صحبت، معیت یا سنگت کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ "صالح ہم نشین کی مثال عطر فروش کی طرح ہےاگر وہ تم کو (عطر) نہ بھی دے تب بھی اسکی خوشبو تم کو پہنچ کر رہیگی، اور بُرے ہم نشین کی مثال لوہار کی بھٹی کی طرح ہےاگر اسکی چنگاری تم کو نہ بھی جلائے تب بھی اسکا دھواں تم کو ضرور لگے گا۔" (ابوداؤد: جلدنمبر 2،صفحہ308) اس کا نقشہ عارفِ کھڑی میاں محمد بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پنجابی کلام میں کچھ یوں کھینچا کہ

چنگے بندے دی صحبت یارو جیویں دکان عطاراں

سودا بھاویں مول نہ لیئے ہُلے آنڑ ہزاراں

برے بندے دی صحبت جیویں دکان لوہاراں

کپڑے بھاویں کنج کنج بوئیے چھٹے پہنڑ ہزاراں

مسلم شریف کی ایک طویل حدیثِ مبارک ہے، جس میں اُن خوش نصیبوں کیلئے مُژدَۂ جا نفِزا ہے، جو ذِکْرُاللہ کیلئے حلقہ بناتے اور جمع ہوکر اپنے معبودِ بَرحق کا ذکر کرتے ہیں، اس حدیثِ مُبارک کے آخر میں ہے کہ نبیِّ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ فرشتے عرض کرتے ہیں، اے ربّ العزت! اِن میں فُلاں بندہ بڑا گنہگار تھا، وہ ان (یعنی ذکر کرنے والوں ) کے قریب سے گزرا تو اِن کے ساتھ بیٹھ گیا۔ آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اسے بھی بخش دیا۔ وہ (ذکر کرنے والی) ایسی قوم ہے کہ ان کے ساتھ بیٹھنے والا بھی بدنصیب نہیں ہوتا۔ (مسلم، کتاب الذکر الخ، باب فضل مجالس الذکر، ص۱۴۴۴، حدیث:۲۶۸۹) اسی طرح فرید الدین عطار (رح) نے اپنی کتاب 'منطق الطیر' میں ایک حکایت لکھی کہ ہدہد پرندوں کو، ان کے بادشاہ سے ملاقات کیلئے لے کر سفر پر نکلتا ہے، ہدہد تمام پرندوں کا مرشد/رہبر بنتا ہے۔ ہدہد کی حکمت بھری باتوں سے متاثر ہوکر راستے میں پرندے نے سوال کیا کہ تم بھی ہماری طرح ہو، پھر تم نے اتنی حکمت کی باتیں کہاں سے سیکھیں۔ ہدہد نے جواب دیا کہ واقعی ہم میں کوئی فرق نہیں، دونوں ایک ہی ہیں۔ آؤ میں تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں۔

ایک بادشاہ سفر کے دوران اپنے قافلے سے الگ ہوگیا، وہ چلتے چلتے ایک جگہ پر گھوڑا روکتا ہے، وہ دیکھتا ہے کہ ایک لڑکا دریا کنارے مچھلیاں پکڑ رہا ہے  بادشاہ نے اس لڑکے سے پوچھا کہ تم کیا کام کرتے ہو لڑکے نے جواب دیا کہ یہی کام کرتا ہوں۔ بادشاہ نے اس سے کہا کہ دونوں مل کر کام کرتے ہیں، جو کمائیں گے آپس میں آدھا آدھا بانٹ لیں گے۔ لڑکے کے راضی ہونے پر بادشاہ نے پوچھا روز کتنی مچھلیاں پکڑ لیتے ہو، اس نے بتایا کہ 4، 5 پکڑ ہی لیتا ہوں، مگر اس روز جب بادشاہ بھی ساتھ مل گیا تو اس نے 100 مچھلیاں پکڑیں، بادشاہ نے کہا یہ سب مچھلیاں تم رکھ لو میں پھر کسی دن لے لوں گا۔ بادشاہ وہاں سے اپنے محل کی طرف روانہ ہو گیا، اپنے محل میں پہنچ کر بادشاہ نے اس لڑکے کو دربار میں بلایا تو لڑکا اس کو دیکھ کر حیران رہ گیا، مگر بادشاہ نے اس کو عزت بخشی اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ بعد ازاں جب لوگوں نے اس لڑکے سے اس معاملے کی وجہ پوچھی تو اس نے ساری کہانی سنائی اور کہا کہ پہلے میرے نصیب کی چار پانچ مچھلیاں ملتی تھیں، مگر جب بادشاہ کا بخت میرے ساتھ جڑ گیا تو اس کی وجہ سے مچھلیاں بھی 100 ہوئیں اور اس تخت پر بھی بیٹھنا نصیب ہوا۔ اسی طرح ہم سب اس لڑکے کی طرح ہیں۔ میرا حضرت سلیمان علیہ السّلام کے ساتھ رہنا مجھے شرف بخشتا ہے۔

اچھے اور متقی لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کی صحبت اختیار کرو۔‘‘ (التوبہ 119) اور سچوں سے مراد تقویٰ اختیار کئے ہوئے اہل اللہ و بزرگانِ دین ہیں۔ اس کا علم ایک اور آیت سے ہوتا ہے "وہی لوگ سچے ہیں اور وہی تقویٰ والے ہیں۔‘‘ ( البقرہ 177) تقویٰ نام ہے ’’کف النفس عن الھویٰ‘‘ یعنی اپنے نفس کو خواہش کا غلام بننے سے روکنا اور یہ تقویٰ صحبتِ اہل اللہ سے پیدا ہوتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ’’کُوْنُوْا‘‘ امر سے ایمان لانے والوں پر صحبتِ اہل اللہ کو ضروری کر دیا۔ حدیث پاک میں آتا ہے، ’’اور حکما ء سے اختلاط یعنی ملنا جلنا رکھو۔‘‘ (الجامع الصغیر، حدیث ۳۵۷۷)  جس طرح ایک شہد کی مکھی بھی مکھیوں کی نسل سے ہے، مگر اس کا اخراج شفا بخش اور میٹھا ہوتا ہے، جبکہ دوسری مکھیاں بیماری کا باعث بنتی ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ اُس کے پیٹ سے ایک پینے کی چیز رنگ بَرنگ نکلتی ہے جس میں لوگوں کی تندرستی ہے۔ (پ۱۴، النحل:۶۹) کیونکہ باقی مکھیاں گندگی کی معیت یا صحبت اختیار کرتی ہیں، جبکہ شہد کی مکھی پھولوں کی صحبت میں رہنے کی وجہ سے منفرد ہو جاتی ہے۔

مذکورہ بالا آیات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں ایک بات تو واضح ہے کہ صحبت انسان کی شخصیت کے ساتھ اس کی تقدیر بھی بدل سکتی ہے۔ جیسے سنگِ پارس ایک ایسا پتھر ہے، جس لوہے کے ساتھ لگ جائے تو وہ سونا بن جائے، اگر عام پتھر کے ساتھ مس ہو تو اس کو ہیرا بنا دے۔ اولیاء کرام کی صحبت بھی اس سنگِ پارس کی مثل ہے جو ایک گنہگار سیاہ کار کو بھی راہ حق کا مسافر بنا دیتی ہے۔ تاریخ بھری پڑی ہے ایسی مثالوں سے جب کوئی بدنامِ زمانہ کسی مردِ کامل کے پاس گیا تو اس نے ایک ہی نگاہ میں اس کے دل کی دنیا بدل ڈالی۔ بقول ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ

نگاۂ ولی میں وہ تاثیر دیکھی 

بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی

دورِ حاضر میں ہم اس صحبت کو آسانی سے اختیار کر سکتے ہیں، آج کے دور میں کتب، میڈیا اور سوشل میڈیا پر اولیاء کرام کی تعلیمات عام ہیں، جن کو معمول کا حصہ بنا کر ہم اپنے قلوب کو منور فرما سکتے ہیں، اس سے بھی بڑھ کر اگر ہم دورِ حاضر میں کسی مردِ مومن کی براہِ راست صحبت تک پہنچ جائیں تو یہ نعمتِ عظمیٰ ثابت ہو گی، اس کے لئے ہمیں صرف ایک سچی اور پکی دلیل کی ضرورت ہے، صرف اپنے اندر اس طلب کو پیدا کریں کہ اللہ کریم ہمیں ایسی شخصیت کی صحبت عطاء فرما جو ہمارے فواد یعنی ہماری روح کے دل کو تیری آماجگاہ بنا دے۔