گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی رسول

image

گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی رسول کا تاریخی پسِ منظر ایک صدی پرانہ، جس کی ابتدا 1873ء میں پنجاب یونیورسٹی کے تحت اوریئنٹل کالج لاہور میں سروئنگ کلاس کے اجراء کے ساتھ ہوئی، 1912ء میں اسکول کو موجودہ کیمپس واقع رسول ضلع گجرات (موجودہ ضلع منڈی بہاؤالدین) منتقل کر دیا گیا۔

منڈی بہاؤالدین: گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی رسول کی تاریخ ایک صدی سے پرانی ہے، جس کی ابتدا 1873ء میں پنجاب یونیورسٹی کے تحت اوریئنٹل کالج لاہور میں سروئنگ کلاس کے اجراء کے ساتھ ہوئی۔ 1885ء میں یہ کلاس میو اسکول آف آرٹس لاہور میں منتقل کر دی گئی، جہاں 1906ء میں اسکول آف انجینئرنگ قائم ہوا۔ یہ نظام کچھ عرصہ جاری رہا لیکن جلد ہی یہ محسوس کیا گیا کہ وہاں ورکشاپ کی سہولتوں اور عملی تربیت کیلئے جگہ ناکافی ہے۔ چنانچہ 1912ء میں اسکول کو موجودہ کیمپس واقع رسول ضلع گجرات (موجودہ ضلع منڈی بہاؤالدین) منتقل کر دیا گیا، جو 216 ایکڑ پر مشتمل ہے۔

سال 1962ء تک یہ ادارہ پی ڈبلیو ڈی کے زیر انتظام رہا اور ابتدائی پچاس سال کے عرصہ میں بطور اسکول آف انجینئرنگ نہایت مفید خدمات سر انجام دیتا رہا، دو سالہ سرٹیفکیٹ پروگرام کے تحت 6000 بہترین ایسوسی ایٹ انجینئرز تیار کئے۔ 1962ء میں اس ادارے کو نظامت فنی تعلیم مغربی پاکستان کے تحت کردیا گیا اور نئے قائم ہونے والے دوسرے فنی اداروں کی طرح تین سالہ ڈپلومہ کورس کا اجراء کیا گیا۔ 1972ء کی تعلیمی پالیسی کے تحت یہ ادارہ 10 اکتوبر 1974ء کو گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی بنا دیا گیا اور بی ٹیک ڈگری کورسز بھی شروع کیے گئے۔ 1999ء میں محکمہ تعلیم سے منتقل ہو کر ٹیوٹا کے زیراہتمام کام کر رہا ہے۔

مونگ وہ تاریخی علاقہ ہے جہاں سکندر اعظم اور راجہ پورس کے درمیان لڑائی ہوئی تھی۔ یہ علاقہ رسول کالج کے بالکل قریب ہی واقع ہے۔ اس کالج کے طلباء نے 1901ء میں مونگ کے ٹیلوں کی کھدائی کے دوران پرانے برتن نکالے یہ برتن قبلِ مسیح استعمال کئے جاتے تھے۔ اُس وقت کا بنا ہوا مٹی کا ایک گھڑا جو اب اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں وہ بھی میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ انگریزوں کے دور حکومت کے دوران جو ٹائپ رائٹر، کیمرے، ہینڈ پمپ، موسیقی کے آلات، واٹر جیٹ آپریٹرز اور 1951ء کا ایک کیلکولیٹر بھی میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ کالج میں ایک ایسی لیب بھی موجود ہے، جہاں تعمیراتی میٹیریل مثلاً اینٹیں، سریا اور گارڈرز وغیرہ کی مضبوطی کو پرکھنے کیلئے قدیم آلات نصب ہیں۔ 

رسول کالج میں 1953ء میں 160x74 فٹ کا ایک بہت بڑا ہال تعمیر کیا گیا، جو واقعی فنِ تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ اس ہال کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی چھت میں ایک بھی پلر موجود نہیں۔ اور اس ہال میں تقریباً ایک ہزار طلباء بیک وقت بیٹھ سکتے ہیں۔ اس ہال کے چھت کو الگ سے بنایا گیا اور پھر بھاری مشینری کے ذریعے ہال کی دیواروں پر رکھ دیا گیا۔ یہ ہال یقیناً اپنی الگ ہی انفرادیت رکھتا ہے۔ اس کالج میں 150 سٹاف ممبرز کے لیے رہائشیں بھی موجود ہیں۔ اس کالج کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے احاطے میں 2 گورنمنٹ اور 1 پرائیویٹ سکول بھی قائم ہیں۔ یہاں کے مکینوں کیلئے ایک ڈسپنسری بھی قائم کی گئی ہے۔ 

اس یونیورسٹی کا اوول گراؤنڈ نہایت خوبصورت اور دلکش ہے۔ کٹھل بہت ہی نایاب پھل ہے۔ پاکستان میں کٹھل کے درخت نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کٹھل کے درخت زیادہ تر مشرقی افریقہ کے ممالک یوگنڈا، مریشس اور برازیل میں پائے جاتے ہیں۔ یہ بنگلہ دیش کا قومی پھل بھی ہے۔ گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی رسول میں کٹھل کا ایک ہی درخت ہے اور آپ اس کے نایاب ہونے کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایک چوکیدار ہر وقت اس پھل کی نگرانی کیلئے موجود رہتا ہے۔ ایک دور تھا جب منڈی بہاؤالدین سے لیکر رسول کالج تک ریلوے کی پٹڑی بچھائی گئی تھی۔

 اس پر باقاعدہ طلباء کو لانے اور لے جانے کیلئے ٹرین چلتی تھی۔ اُس ٹریک کا کچھ حصہ آج بھی یونیورسٹی میں موجود ہے اور خستہ حالت میں ایک ڈبہ بھی اس ٹریک پر کھڑا ہے۔ اس ریل ٹریک کے آثار آپ کو 8 آر ڈی پُل پر بھی ملتے ہیں۔ لوہے کو پگھلانے والی بھٹی، قدیم دور میں سڑکیں بنانے والے رولر اور بلڈوزر اور زمین سے پانی نکالنے کیلئے اُس وقت جو مشینری استعمال کی جاتی تھی وہ بھی کالج میں مختلف جگہوں پر موجود ہے۔ انگریزوں نے یہاں بجلی حاصل کرنے کیلئے 8 بڑے ڈی سی جنریٹر بھی لگا رکھے تھے جو پورے کالج کو بجلی سپلائی کرتے تھے۔ بڑے ہال کے قریب ایک بس کا ڈھانچہ بھی دکھائی دیا جو ماضی قریب میں کینٹین کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا، یہ بس ایران کے آخری بادشاہ نے کالج کے طلباء کیلئے تحفے میں دی تھی۔