گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ ذاتِ خدا

image

حضرت داتا علی ہجویری (رح) کا 979 واں سالانہ عُرس، آپ 400 ہجری میں غزنی شہر سے متصل ایک بستی ہجویر میں پیدا ہوئے، حضرت داتا گنج بخش سلطان محمود غزنوی کے بیٹے ناصر الدین کے زمانے 1030ء تا 1040ء میں لاہور تشریف لائے۔

لاہور: حضرت داتا علی ہجویری صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا 979واں عرس مبارک مذہبی جوش و جذبے اور عقیدت سے منایا گیا، پندرہ ستمبر سے شروع ہو کر گزشتہ روز تک جاری رہا، جس میں لاکھوں عقیدت مندوں نے پاکستان بھر سے شرکت کی۔ آپ (رح) کا پورا نام شیخ سیّد ابو الحسن علی ہجویری ہے۔ کنیت ابو الحسن لیکن عوام و خواص سب میں "داتا گنج بخش" (خزانے بخشنے والا) کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ (رح) 400 ہجری میں غزنی شہر سے متصل ایک بستی ہجویر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی سید عثمان جلابی ہجویری ہے۔ جلاب بھی غزنی سے متصل ایک دوسری بستی کا نام ہے جہاں سید عثمان رہتے تھے۔ حضرت علی ہجویری رحمۃ اللّٰہ علیہ، حضرت زید (رض) کے واسطے سے امام حسن (رضى الله عنه) کی اولاد سے ہیں۔ حضرت داتا علی ہجویری رحمتہ اللہ کے اساتذہ میں شیخ ابو العباس اشقاقی، شیخ ابو جعفر محمد بن المصباح الصید لانی، شیخ ابو القاسم عبد الکریم بن ہوازن القشیری، شیخ ابوالقاسم بن علی بن عبد اللہ الگرگانی، ابو عبد اللہ محمد بن علی المعروف داستانی بسطامی، ابو سعید فضل اللہ بن محمد مہینی اور ابو احمد مظفر بن احمد بن حمدان رحمۃ اللہ علیہم کے نام ملتے ہیں۔ طریقت میں آپ کے شیخ ابو الفضل محمد بن حسن ختلی رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔

 ان کے حالات قلمبند کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ طریقت میں میری اقتداء آپ رحمتہ اللہ علیہ ہی کے ساتھ ہے۔ تفسیر، حدیث اور تصوف تینوں کے آپ عالم تھے۔ تصوف میں آپ حضرت جنید رحمۃ اللّٰہ علیہ کے رستے پر تھے۔ حضرت شیخ حضرمی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مرید اور حضرت سروانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مصاحب تھے۔ 60 سال تک مخلوق سے گم اور پہاڑوں میں گوشہ نشین رہے۔ زیادہ تر قیام جبل لگام پر رہتا تھا۔ میں نے آپ سے زیادہ بارعب اور صاحب ہیبت کوئی شخص نہیں دیکھا۔ صوفیوں کے لباس سے ہمیشہ کنارہ کش رہے۔ ایک مرتبہ میں آپ کو وضو کرانے کیلئے آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہا تھا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ میں ایک آزاد آدمی ہوں آخر میں ان پیروں کی کیوں غلامی کروں جو قسمت میں لکھا ہے وہ ضرور پورا ہو گا۔ آپ نے فرمایا، بیٹا جو خیال تیرے دل میں پیدا ہوا ہے میں اسے جانتا ہوں، ہر کام کا ایک سبب اور ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ خدمت اور ملازمت آدمی کی بزرگی کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ حق تعالٰیٰ چاہتا ہے تو ایک سپاہی زادے کو تاج شاہی پہنا دیتا ہے۔ جس روز آپ کی وفات ہوئی تو آپ بانیاں اور دمشق کے درمیان پہاڑ پر واقع ایک گاؤں بیت الجن میں تھے اور آپ کا سر میری گود میں تھا۔ میرا دل سخت مضطرب اور تکلیف میں تھا، جیسے کہ ایسے محسن اور دوست کی علیحدگی کے خیال سے ہونا ہی چاہیے تھا۔ آپ نے فرمایا، بیٹا! میں اعتقاد کا مسئلہ بیان کرتا ہوں۔ اگر تو اپنے آپ کو اس کے مطابق درست کر لے گا تو تیرے دل کی یہ تمام تکلیف دور ہو جائے گی۔ یہ بات یاد رکھ کہ اللہ عزل و جل کوئی کام الل ٹپ نہیں کرتا، وہ تمام حالات کو ان کے نیک وبد کا لحاظ رکھ کر پیدا فرماتا ہے۔ تیرے لئے لازم ہے کہ خدا کے فعل میں اس سے جھگڑا نہ کر اور جو کچھ وہ کرتا ہے، اس پر رنجیدہ نہ ہو۔ آپ نے ابھی اتنی بات فرمائی تھی کہ اپنی جان خداوند کریم کے سپرد کر دی۔ 

کسب روحانی کیلئے حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے شام، عراق، فارس، قہستان، آزربائیجان، طبرستان، خوزستان، کرمان، خراسان، وراء النہر اور ترکستان وغیرہ کا سفر کیا۔ ان ممالک میں بے شمار لوگوں سے ملے اور ان کی صحبتوں سے فیض حاصل کیا۔ صرف خراسان میں جن مشائخ سے آپ ملے ان کی تعداد تین سو ہے۔ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں نے خراسان میں تین سو اشخاص ایسے دیکھے ہیں کہ ان میں سے صرف ایک سارے جہان کیلئے کافی ہے۔ اپنے زمانے کے جن بزرگوں سے آپ خاص طور پر متاثر ہوئے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ ان کے بارے میں تاثرات بھی قوسین میں درج ہیں۔ شیخ محمد زکی بن العلا (زمانے کے سردار اور محبت کا شعلہ)، شیخ القاسم سدسی (پیر مجاہدہ)، شیخ الشیوخ ابو الحسن بن سالبہ (توحید میں روشن بیان)، شیخ ابواسحاق بن شہریار(صاحب دبدبہ)، شیخ ابوالحسن علی بن بکران (بزرگ صوفی)، شیخ ابو عبد اللہ جلیدی (بہت احترام والے)، شیخ ابو طاہر مکشوف (جلیل القدر بزرگ)، شیخ احمد بن شیخ خرقانی، خواجہ علی بن الحسین السیر کانی(وقت کے سیاح)، شیخ مجتہد ابوالعباس دامغانی (خدا کے اقبال کا سایہ)، خواجہ ابو جعفر محمد بن علی الجومینی (محقق بزرگ)، خواجہ رشید مظفر بن شیخ ابو سعید (دلوں کا قبلہ)، خواجہ شیخ احمد جمادی سرخسی (وقت کے پہلوان) اور شیخ احمد نجاّر سمرقندی (زمانے کے بادشاہ) رحمہم اللہ ہیں۔ 

آپ رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک صوفی صفا سے مشتق ہے۔ اور صفا کی اصل دل کو غیر اللہ سے منقطع اور دنیا غدار سے خالی کرکے اسے اللہ سے جوڑنا ہے۔ گویا اس کا مطلب اخلاص اور سچی محبت کے ساتھ خدا کی بندگی کی راہ اختیار کرنا ہے۔ نہ کہ کوئی خاص وضع قطع اختیار کرنا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ طالب کو تمام احوال میں شرع اور علم کا پیرو ہونا چاہیے، کیونکہ سلطان علم سلطان حال پر غالب اور اس سے افضل ہے۔ چنانچہ آپ چالیس برس مسلسل سفر میں رہے لیکن کبھی نماز باجماعت ناغہ نہیں کی اور ہر جمعہ کی نماز کیلئے کسی قصبہ میں قیام فرمایا۔ عام رہن سہن عام لوگوں کی طرح رکھتے۔ صوفیوں کی ظاہری رسوم اور وضع قطع سے آپ شیخ طریقت شیخ ابوالفضل محمد بن ختلی رحمتہ اللہ علیہ کی طرح ہمیشہ مجتنب رہے۔ بلکہ اس سے آپ کو ایک گونہ نفرت تھی اور ان چیزوں کو ریا کاری ونمائش اور معصیت کا نام دیتے تھے۔ نکاح کے بارے میں آپ (رح) نے فرمایا کہ جو شخص مخلوق میں رہنا چاہے اس کیلئے نکاح کرنا شرط ہے اور اگر بغیر نکاح کے اس کے زنا میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو تو اس کیلئے نکاح فرض ہے۔ لیکن جو مخلوق سے الگ تھلگ رہتا ہو اس کیلئے مجرد ( کنوارا) رہنا اچھا ہے تا کہ اس کی وجہ سے کوئی نیک بخت پریشان نہ ہو اور وہ بھی یکسوئی کے ساتھ اللہ کی ملازمت کر سکے۔ آپ چونکہ اپنی عمر کا بیشتر حصہ سفر اور مسافرت ہی میں رہے۔ اس لئے آپ نے شادی نہیں کی بلکہ تجرد (کنوارا ) کی زندگی گزار دی۔

آپ اپنے مرشد کے حکم سے خدا کے دین کی تبلیغ و اشاعت کیلئے سلطان محمود غزنوی کے بیٹے ناصر الدین کے زمانے 1030ء تا 1040ء میں لاہور تشریف لائے۔ آپ سے پہلے آپ کے پیر بھائی حسین زنجانی اس خدمت پر مامور تھے۔ اس لئے جب آپ کو لاہور آنے کا حکم ہوا تو آپ فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ سے عرض کیا کہ وہاں حسین زنجانی موجود ہیں میری کیا ضرورت ہے؟ لیکن شیخ نے فرمایا، نہیں تم جاؤ۔ فرماتے ہیں کہ میں رات کے وقت لاہور پہنچا اور صبح کو حسین زنجانی کا جنازہ شہر سے باہر لایا گیا۔ تبلیغ و اشاعت دین کے سلسلے میں آپ رحمتہ اللہ علیہ نے برصغیر ہند کے دوسرے حصّوں کا بھی سفر کیا۔ چنانچہ آپ اپنی کتاب 'کشف المحجوب' میں حضرت ابو حلیم حبیب بن اسلم راعی کے حالات میں لکھتے ہیں کہ شیخ رحمتہ اللہ علیہ کی اور بھی بہت سی روایتیں ہیں۔ وقت کی تنگی کی وجہ سے میں انہیں چھوڑتا ہوں اور مجھے یہ سخت دقت پیش آ رہی ہے کہ میری کتابیں غزنی میں ہیں اور میں ملک ہندوستان کے ایک گاؤں بھنور میں ہوں جو ملتان کے گردونواح میں واقع ہے۔ اور بالکل غیر جنسوں میں گرفتار ہوں۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ کے وصال شریف کے بارے میں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ چنانچہ سفینۃ الاولیاء میں دار شکوہ نے وصال باکمال 454ھ یا 464ھ ذکر کیا۔ غلام سرور لاہوری نے خزینۃ الاولیاء میں تاریخ وصال 464ھ یا 466ھ لکھی ہے۔ اے ،آر نکلس مترجم کشف المحجوب کے نزدیک وصال باکمال 465ھ یا 469ھ کو ہوا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا روضہ ناصر الدین مسعود کے بیٹے ظہیر الدین الدولہ نے تعمیر کروایا۔ اور خانقاہ کا فرش اور ڈیوڑھی جلال الدین اکبر بادشاہ 1555ء تا 1605ء کی تعمیر ہیں۔ خواجہ معین الدین اجمیری 1639ء اور بابا فرید الدین گنج شکر نے کسب فیض کیلئے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر چلہ کشی کی اور حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے چلہ کے بعد رخصت ہوتے وقت یہ شعر کہا "گنج بخش فیضِ عالم مظہر نورِ خُدا ناقصاں راپیرِ کامل، کاملاں را رہنما" اسی سے آپ کی "گنج بخش" کے نام سے شہرت ہوئی۔ حضرت داتا علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ نے کشف المحجوب، کشف الاسرار، منہاج الدین (یہ کتاب اصحابِ صفہ کے مناقب پر تھی)، الرعایتہ الحقوق اللہ، کتاب الفناد، اسرار المؤنات جیسی شہر آفاق کتب تصنیف فرمائیں لیکن اب کشف المحجوب کے سوا کوئی اور کتاب نہیں ملتی۔