ٹرانس جینڈر ایکٹ؛ اسلامی سماجی نظام کے ساتھ ایک گھناؤنا کھیل

image

کچھ دن قبل مملکتِ خداداد پاکستان کی پارلیمنٹ میں خواجہ سراؤں کے حقوق کی آڑ میں اسلامی و پاکستانی سماج کے ساتھ ایک گھناؤنا کھیل کھیلا گیا۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ کی صورت میں ایک قانون بنایا گیا جو ایوانِ زیریں سے تو پاس ہو گیا اور ایوانِ بالا میں پاس ہونے کیلئے ابھی جانا ہے۔ یہ ایکٹ سب سے پہلے 2018ء میں نون لیگ کے دور حکومت میں پیش کیا گیا اور پیش کرنے والوں میں پیپلز پارٹی کے سینٹرز کے ساتھ رضا ربانی، روبینہ خالد، فرحت اللہ بابر اور نوید قمر تھے۔ 

 

اِس ایکٹ میں ٹرانس جینڈر کی تین تعریفیں بیان کی گئی ہیں۔ (1) ایسا شخص جس کے صنفی اعضاء میں ابہام ہو (2) ایک ایسا شخص جو کہ مرد تھا اور حادثاتی طور پر اس کے صنفی اعضاء ناکارہ ہو گئے ہیں تو وہ شخص ٹرانس جینڈر کہلائے گا۔ (3) ایک ایسا شخص جو واضح طور پر مرد ہے یا عورت لیکن وہ محسوس کر تا ہے کہ میں اِس جنس کا نہیں ہوں تو وہ ٹرانس جینڈر ہے، اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے شناختی کاغذات میں اپنے احساسات کے مطابق تبدیلی کروا سکتا ہے اور نادرا یہ تبدیلی کرنے کا قانونی طور پر پابند بھی ہوگا۔

 

اب یہاں پر دوسری اور تیسری تعریف اسلامی روایات اور اخلاقیات کے بالکل منافی ہے اور یہ چیز کوئی باشعور شخص بھی تسلیم نہیں کر سکتا ہے کہ ایک شخص اپنی مرضی کے مطابق نادرا جائے اور جاکر اپنی جنس تبدیل کروا لائے، حالانکہ اُس شخص اور اس کے حلقۂ احباب میں سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ مرد ہے یا عورت ہے! یہ تو ایسے ہوا کہ ایک شخص جس کی آنکھیں بالکل ٹھیک ہوں لیکن وہ کہے کہ مجھے لگتا ہے میں اندھا ہوں تو کیا اُس شخص کو اندھوں کے سکول کا ہیڈ ماسٹر لگا دیا جانا چاہئیے؟ یا پھر ایک ایسا شخص آجائے جو دیکھنے، چلنے پھرنے یا اٹھنے بیٹھنے میں بالکل ٹھیک ہو اور وہ کہے کہ مجھے لگتا ہے میں معذور ہوں تو کیا اس کو معذوروں کی انجمن کا صدر بنا دیا جانا چاہئیے؟ ایک چیز جو فطرت کے خلاف ہے تو اُس کے برعکس کوئی قانون کیسے بن سکتا ہے اور مسلط کیا جا سکتا ہے، کیا ایسے قانون کو آئین کا حصہ بنا کر عوام پر نافذ کیا جا سکتا ہے؟ 

 

ستم ظریفی دیکھئے کہ مئی 2018ء میں یہ بل پیش ہوتا ہے اور 2022ء میں یہ ایکٹ بن جاتا ہے۔ نادرا کی رپورٹ کے مطابق جولائی 2018ء سے جون2021ء تک گزشتہ تین سالوں میں 28,723 افراد نے جنس کی تبدیلی کیلئے درخواستیں دی ہیں۔ اِن میں 16530 مرد تھے جو اپنے آپ کو بطور عورت رجسٹر کروانا چاہتے تھے اور 2,154 عورتوں نے خود کو مرد کی شناخت دینے کیلئے درخواستیں دی ہیں۔

 

اس ایکٹ کے اندر جو سب سے بڑی خامی ہے کہ بندہ اپنی مرضی سے اپنی جنس تبدیل کروائے اور اِس قانون کے تحت کسی طبی معائنے یا ڈاکٹر کی گواہی کی ضرورت بھی نہیں! حتیٰ کہ برطانوی اور بھارتی ایکٹ میں بھی جنس کی تبدیلی کیلئے میڈیکل چیک اپ ضروری ہے۔ انڈین منسٹری آف لاء کے ایکٹ 2019ء کے مطابق ایک کونسل بنائی گئی ہے جس میں ایک سائیکالوجیسٹ رکھا گیا ہے اور اُس میں لکھا گیا ہے کہ جو بندہ جنس کی تبدیلی کیلئے درخواست جمع کرائے گا اس کو متعلقہ ڈاکٹر کی طرف سے جاری کرده ایک سرٹیفکیٹ جمع کروانا ہوگا۔ 

 

اس متنازع ایکٹ کے نتائج کیا ہونگے اور اس سے معاشرے میں کیا بگاڑ رونما ہو سکتا ہے؟ (1) اِس کے نتیجے میں وہ مرد جو حکومتی کاغذات میں عورت رجسٹرڈ ہو گا وہ کسی دوسرے مرد سے شادی کر سکے گا، (2) وہ مرد عورتوں کی پولنگ اسٹیشنز میں جا سکے گا، (3) وہ عورتوں کے واش رومز، سوئمنگ پولز الغرض ہر وہ مقامات جو عورتوں کیلئے خاص کیے گئے ہیں، وہاں جا سکے گا، (4) وہ عورتوں کے کالج میں داخلہ لے سکے گا، (5) وہ عورتوں کی سپورٹس میں بھی حصہ لے سکے گا۔ اسی طرح ایک عورت جو حکومتی کاغذات میں مرد بن گئی ہے وہ وراثت میں مرد کے برابر جائیداد میں اپنا حصہ مانگ سکے گی۔ لہٰذا اگر یہ ایکٹ ایوانِ بالا سے بھی پاس ہو گیا تو اس ایکٹ کے نتیجے میں اسلامی خاندانی نظام میں جو تبائی آئے گی وہ ناقابل بیان ہے۔ اس سے ہم جنسی پرستی کے ساتھ ساتھ ایک ہی جنس کے دو افراد کی آپس میں شادی کو بھی فروغ ملے گا جس سے مملکتِ خداداد میں ہم جنس پرستی کا طوفان برپا ہو سکتا ہے، جس کا ناسور پورے معاشرے کو گھیر لے گا۔ افسوس کہ جس مظلوم صنف یعنی حقیقی مخنث کیلئے یہ قانون بنایا گیا ہے ان کی تعداد بہت ہی کم ہے، ان کو اس سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہو رہا، بلکہ جعلی مرد و عورت قانونی طور پر اپنے آپ کو ٹرانس جینڈر بنا کر اِس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ 

 

افسوس کہ میڈیا پر کچھ اور طرح کے موضوعات زیرِ بحث ہیں او ہمارا مزاج بھی ایسا بن گیا ہے کہ ہم مصالحہ دار خبریں ہی پسند کرتے ہیں اور اس طرح کے موضوعات ہمیں بورنگ لگتے ہیں۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر سیلاب کیوں آتے ہیں اور ہم پر اللہ کا عذاب کیوں ہے وغیرہ وغیرہ؟ الله تعالی قرآنِ مجید میں فرماتا ہے کہ "تم بعض چیزوں کو مان لیتے ہو اور بعض کا انکار کر دیتے ہو" اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے اپنے کلام میں ارشاد فرمایا ہے کہ "میں دنیا میں ہی انہیں ذلیل و رسوا کرتا ہوں۔" ابھی بھی وقت ہے کہ ہم سمجھ جائیں، فطرت، خدا اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے احکامات سے مقابلہ کرنا اور کھیلنا بند کر دیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ یہ صورتحال بن جائے کہ "پھر ہم نے ان بستیوں کو الٹ کر ان کے اوپر والے حصے کو نیچے کر دیا اور ان لوگوں پر کنکر کے پتھر برسائے۔"(القرآن)۔ اس واقعے میں اہلِ بصیرت کیلئے بہت سی عبرتیں اور بہت سے اسباق ہیں اور ان کی یہ بستیاں لبِ سڑک واقع ہیں۔ آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم سب بحیثیت ایک قوم اپنے ملک کی ہر سطح پہ ہر لحاظ سے اِس کے آئینی و اسلامی نظریے کی حفاظت و بقا کے لئے ان تھک محنت کریں اور اس جدوجہد کو نسل در نسل اپنی آنے والی تمام نسلوں تک منتقل کرنے کے مختلف طریقے وضع کریں اور ایسے اقدامات کو قومی پالیسی کا حصہ بنا کے اس میں کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی کرنے کی اجازت ہرگز نہ دی جائے۔