”پاکستان کی عدالتوں کا انصاف ایک المیہ“

image

قانون کی حکمرانی کے حوالے سے ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی 2021ء کی انڈیکس کے مطابق پاکستان 139 ممالک کی فہرست میں 130ویں نمبر پر ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے پاکستان کی نچلی رینکنگ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان کی یہ رینکنگ نہ صرف دنیا میں بہت نیچے ہے بلکہ جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی اس کی رینکنگ حوصلہ افزا نہیں ہے اور اس حوالے سے نیپال، سری لنکا، انڈیا اور بنگلہ دیش کی کارکردگی پاکستان سے نسبتا بہتر ہے۔ صرف افغانستان کی کارکردگی پاکستان سے بدتر ہے۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بدعنوانی کو قابو کرنے، بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور ریگولیشنز کے حوالے سے پاکستان کی کارکردگی انتہائی بری ہے۔ اس کے علاوہ کرمنل جسٹس، سول جسٹس، اہل اقتدار یا اہل اختیار کے طرز عمل میں قانون کی حکمرانی کا اصول اور شفاف حکومت کے حوالے سے بھی پاکستان کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔ سول جسٹس کے حوالے سے پاکستان کا نمبر 126واں اور ریگولیشن کے حوالے سے 130واں ہے۔

معروف قانون داں علی احمد کرد کا کہنا ہے کہ ملک بہت خطرناک صورتحال سے گزر رہا ہے اور ملک میں ہر ادارے کی ابتری کی عکاسی یہ بین الاقوامی رپورٹ بھی کر رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسا لگتا ہے کہ ملک میں کوئی عدالت، کوئی پارلیمنٹ، کوئی حکومت وجود نہیں رکھتی۔ لوگوں کے بنیادی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے، بولنے اور سوچنے کی آزادی پر قدغن لگائی جا رہی ہیں۔ ہر چیز کو اسٹیبلشمنٹ کنٹرول کر رہی ہے۔ سرکار کی طرف سے تعلیم، روزگار، صحت اور جان و مال سمیت کسی بھی بنیادی حق کی آزادی نہیں ہے۔‘‘

علی احمد کرد کا مزید یہ کہنا تھا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی اس لیے نہیں ہے کیونکہ تمام اختیارات ایک ادارے نے اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں اور وہ سب چیزوں کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔

سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان کا کہنا ہے کہ ملک میں غیر قانونی طور پر لوگوں کو حراست میں لیا جانا یا گرفتار کرنے کا عمل بھی اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان قانون کی حکمرانی کے اصول سے دور ہے یا یہاں یہ حکمرانی کمزور ہے۔

 سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں بنیادی حقوق کی ضمانت آٗئین نے دی ہے اور ملک کے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ اس حوالے سے کارروائی بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ملک میں جبری گمشدگی کا معاملہ سنگین صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے اور غیر قانونی طور پر لوگوں کو حراست میں لے لیا جاتا ہے اور ایسا ملک کے طاقتور ترین اداروں کی طرف سے کیا جاتا ہے، جب کوئی سائل ہائی کورٹ میں درخواست لے کر پہنچتا ہے تو یا ایسے افراد کو چھوڑ دیا جاتا ہے یا پھر انہیں کسی اور مقدمے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔‘‘

سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ جبری گمشدگی کے حوالے سے قوانین بھیح ہیں لیکن بدقسمتی سے عملی طور پر وہ اتنے موثر ثابت نہیں ہو پاتے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہو پایا ہے۔

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے سابق چیئر پرسن ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ اس میں پاکستان کی رینکنگ اس لیے کمزور ہے کیونکہ پاکستان کبھی بھی بنیادی انسانی حقوق یا گورننس کے کسی بھی مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔

ڈاکٹر حسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ''ملک میں بنیادی انسانی حقوق عوام کو دینے کا کوئی تصور نہیں، حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتیں اور ان کے رہنما اپنے آپ کو قانونی سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ سول اور کرمنل جسٹس سسٹم صرف طاقتور کے مفاد کا تحفظ کرتا ہے۔ آزادی اظہار رائے اور سوچ کی آزادی ناپید ہے۔ غریب آدمی کو انصاف نہیں ملتا اور غریب آدمی کے لیے انصاف انتہائی مہنگا ہے۔ انصاف کے اداروں تک اس کی رسائی ممکن نہیں۔ 

ڈاکٹر مہدی حسن کا مزید کہنا تھا کہ ایسی رپورٹوں میں رینکنگ ان ممالک کی ہوتی ہے جو جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے ہیں 'لیکن ہمارے یہاں حکمران جماعتیں ہوں یا حزب اختلاف کی جماعتیں، طاقتور بیوروکریٹس یا کسی اور ادارے کے لوگ کوئی بھی جمہوری اقدار کی پاسداری کرنا نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ قانون کی حکمرانی کے فلسفے کو سمجھتے ہیں یا اس کے اصولوں کا اطلاق کرنا چاہتے ہیں۔

اس تمام صورت حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے لگ ایسا رہا ہے کہ پاکستان کسی بھی لمحے ڈیفالٹ کر جائے گا کیوںکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شیر خدا کا یہ فرمان ہے کہ کوئی بھی معاشرہ ظلم پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن نا انصافی کی بنیاد پر  قائم نہیں رہ سکتا”۔ اس لیے ہمیں اس نظام کو تبدیل کرنا ہو گا اور اسلام کے قوانین کو نافذ کرنا ہو گا تاکہ یہ ملک ایک درست سمت پر جا سکے۔