وسے (آباد رہے) تیرا میانوالی
میانوالی پنجاب نہیں بلکہ پاکستان کا نامور شہر ہے جس کے کئی تعارف ہیں۔ سی پیک منصوبے میں اس کوریڈور کی خاصی اہمیت ہے۔ نواب آف کالاباغ نواب ملک محمد امیر خان، سابق وزیراعظم عمران خان اور عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے شہر میانوالی کی ابتداء میانا خاندان جو بغداد سے آیا تھا اور میانوالی میں آباد ہوا تھا، ان کے نام سے ہے۔ انہوں نے اسلام کی تبلیغ کی اور اس میں شعور اجاگر کیا۔ (کتاب؛ مراتب سلطانی) 997ء میں سلطان محمود غزنوی نے اپنے والد، سلطان سبکتگین کی قائم غزنوی سلطنت کا اقتدار سنبھالا۔ 1005ء میں اس نے کابل میں شاہیوں کو فتح کیا اور اس کے بعد اس نے پنجاب کے خطے کی فتوحات حاصل کیں۔ دہلی سلطنت اور بعد میں مغل سلطنت نے اس خطے پر حکمرانی کی۔ وسطی ایشیاء سے مختلف مسلم خاندانوں کی فتوحات کے بعد اس خطے کی اکثریتی آبادی مسلمان ہو گئی۔ میانوالی کی اصل تاریخی نمائندگی 900ء سے ہے لیکن یہاں 1090ء میں قطب شاہ کی آمد پر اصل درستگی کا پتہ لگایا گیا ہے جس نے اپنی فتح کے بعد کے سالوں میں اپنے بیٹوں کو اس خطے پر آباد اور مزید حکمرانی کی اجازت دی تھی۔ ان کا نسب اب بھی ضلع میانوالی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی موجود ہے اور اسے اعوان قبیلہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر جنوبی ایشیاء کے تمام بڑے حکمرانوں نے اس علاقے پر حکومت کی۔ ان کا نسب اب بھی ضلع میانوالی کے ساتھ ساتھ باقی وسیب اور پاکستان میں بھی موجود ہے اور اسے اعوان قبیلہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مغل شہنشاہ بابر نے عیسیٰ خیل کا ذکر اس وقت کیا جب وہ 1520ء کی دہائی کے دوران ان علاقوں کو فتح کرنے کی اپنی مہم کے ایک حصے کے طور پر اعوانوں اور نیازی قبائل کے خلاف لڑ رہا تھا۔ نیازی پاکستان اور مشرقی افغانستان کے لودھی پشتون قبیلے کی ایک شاخ ہے جو ضلع میانوالی کی تحصیل میانوالی اور تحصیل عیسیٰ خیل کے پہاڑی علاقے اور ضلع میانوالی درمیانی علاقے میں آباد ہیں۔ تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ محمود غزنوی کے حملوں سے قبل سوات، کوہاٹ، لکی مروت، بنوں، پشاور، عیسیٰ خیل، میانوالی، ٹانک، کلاچی اور دامان اکثریتی سرائیکی علاقے شمار ہوتے تھے، جہاں سرائیکی کے علاوہ ہندکو دوسری بڑی زبان تھی۔ محمود غزنوی کے حملے کے بعد ان علاقوں میں افغان آباد کاری کی ابتداء ہوئی، اور پھر ہر افغانی حملہ آور کے ہمراہ مختلف افغانی قبائل سرائیکی علاقوں میں پھیلتے چلے گئے۔ کوہ سلیمان سے ملحقہ سرائیکی علاقوں خصوصاً ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں،ٹانک، کلاچی اور میانوالی میں افغان آباد کاری کی تاریخ دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ سبق آموز بھی ہے۔ مثلاً حسین خان کلاچی (بلوچ) کے نام سے موسوم تحصیل کلاچی اور اسکے گرد و نواح میں 1300ء سے قبل مختلف جٹ قبائل بلوچوں کے ہمراہ آباد چلے آ رہے تھے، جہاں بلوچی اور سرائیکی زبان عام تھی۔
1739ء میں دریائے سندھ کے مغرب کے علاقے میں دہلی کے شہنشاہ نے نادر شاہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ 1748ء میں احمد شاہ ابدالی کے جرنیلوں میں سے ایک کے تحت درانی فوج نے کالاباغ میں دریائے سندھ کو عبور کیا اور گکھڑوں کو نکال دیا جو ابھی بھی دہلی کے شہنشاہ کی برائے نام بیعت کے سبب ضلعے کے علاقوں میں حکمران تھے۔ ان کے گڑھ معظم نگر پر قبضہ کر لیا گیا اور ان کے اخراج کے ساتھ ہی ان حصوں میں مغل بادشاہ کے اختیار کی آخری وسعت بھی ختم کر دی گئی۔ برطانوی راج کے دوران بھی میانوالی ضلع پہلے صوبہ ملتان بعد ازاں برطانوی پنجاب کی ریاستوں میں شامل رہا۔ پاکستان کی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع کی آبادی 1،542،601 تھی، جس میں سے 21 فیصد شہروں میں مقیم تھے۔ سب سے زیادہ بولی جانے والی پہلی زبان سرائیکی 76.1 فیصد، پنجابی 9.3 فیصد، پشتو 11.52 فیصد اور اردو 2.75 فیصد تھی۔ ضلع میانوالی کو انتظامی طور پر 3 تحصیلوں، تحصیل میانوالی، تحصیل عیسیٰ خیل اور تحصیل پپلاں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
یہاں کی مشہور شخصیات میں صوفی بزرگ حضرت میاں علی رحمتہ اللہ علیہ، ان کے صاحبزادے حضرت سلطان زکریا رحمتہ اللہ علیہ، مولانا عبدالستار خان نیازی، مذہبی سیاستدان مولانا کوثر نیازی، شیر افگن نیازی، امجد علی خان، تلوک چند محروم شاعر، جگن ناتھ آزاد اردو شاعر، ملک راجکمار بھارتی ہندی و سرائیکی لکھاری، عطاءاللہ خان عیسیٰ خیلوی سرائیکی عوامی گلوکار، سابق گورنر مشرقی پاکستان نواب آف کالاباغ نواب ملک امیر محمد خان، سابق کرکٹر و وزیراعظم عمران خان، مصباح الحق قومی کرکٹر، شاداب خان، امیر عبداللہ خان نیازی پاکستانی جرنیل، سرائیکی و اردو مصنف منصور آفاق، مزاحیہ سرائیکی شاعر نذیر یاد، سرائیکی شاعر انور شاہ انور، عبیداللہ خان شادی خیل سیاستدان، معروف صحافی و کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی اور مزاحیہ اداکار رانا مشتاق قابلِ ذکر ہیں۔ ضلع کے اہم مقامات میں چشمہ بیراج، جناح بیراج، کالاباغ ڈیم، جھیل نمل، چشمہ جھیل، چشمہ بیراج، ماڑی انڈس ریلوے اسٹیشن، کنڈیاں ریلوے اسٹیشن، داؤدخیل ریلوے اسٹیشن ہیں۔
ضلع میانوالی میں شیر شاہ سوری دور کی باؤلی آج بھی قائم ہے جس کو اصل حالت میں بحال کرنے کا کام جاری ہے۔ میانوالی کے کئی علاقوں میں سینکڑوں سال پرانی تہذیب، حملہ آوروں اور قبل مسیح کے آثار ملتے ہیں۔ ماڑی شہر میں راجہ اشوک کا قلعہ، شیر شاہ سوری روڈ، ہندوؤں کے قدیم مکانات اور انگریزوں کی بچھائی گئی ریل کی پٹڑی بھی یہاں موجود ہے۔ سولہویں صدی عیسوی میں افغان سردار فرید خان المعروف شیر شاہ سوری یہاں سے گزرے تو انہوں نے یہاں سڑکیں اور اپنے لشکر میں موجود ہاتھی اور گھوڑوں کیلئے پانی کی باؤلیاں تعمیر کرائیں جن کے نشان اب بھی مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔ میانوالی شہر سے 22 کلومیٹر دور ایک قدیمی شہر واں بھچراں موجود ہے جہاں شیر شاہ سوری نے اپنے قیام کے دوران قلیل مدت میں باؤلی تعمیر کرائی۔ اس باؤلی میں 400 سے زائد سیڑھیاں بنائی گئیں اور یہاں سے گھوڑے اور ہاتھی ان سیڑھیوں سے اتر کر اپنی پیاس بجھاتے تھے۔ باؤلی ایک ایسے گہرے کنویں کو کہتے ہیں جس میں پانی کی سطح تک سیڑھیاں بنائی گئی ہوں یا پانی تک رسائی سیڑھیوں کے ذریعے ہو۔ اس دور میں باؤلی کے ارد گرد راہداریاں اور کمرے بنائے گئے جو اس جگہ کو سایہ دار اور ٹھنڈا رکھتے اور اس جگہ گرمی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ گزرے زمانوں میں امراء اور سردار یہاں آرام و قیام بھی کیا کرتے تھے تاکہ گرمی کا احساس کم ہو۔
ضلع میانوالی جہاں کئی حوالوں سے اپنی ایک خاص پہچان رکھتا ہے، وہیں یہاں کے اصیل مرغ بھی خصوصی شناخت رکھتے ہیں۔ میانوالی کے اصیل مرغے لڑائی کیلئے بھی مشہور ہیں، تاہم اب مرغوں کی لڑائی میں کافی حد تک کمی آگئی ہے، جس کی بڑی وجہ حکومت کی جانب سے اس طرح کے مقابلوں اور ان پر جوا لگانے پر پابندی ہے۔ میانوالی کے اصیل مرغوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اپنے حریف کو منٹوں میں ہلاک کر دیتے ہیں یا پھر 2 سے 3 منٹ میں ناک آؤٹ کر دیتے ہیں جبکہ سندھی اصیل مرغ لمبی لڑائی لڑتے ہیں اور بعض اوقات لڑتے لڑتے کئی گھنٹے گزار دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں میانوالی کے کالے تیتر کو خاصی شہرت حاصل ہے۔ میانوالی کی بات ہو اور یہاں بنائے جانے والے سوجی کی حلوے اور لذیذ کٹوے کو یاد نہ کریں تو یہ زیادتی ہے۔ میانوالی کے "شنا" لمبے چولے کندھے پر رنگین چادر، پاؤں میں طلے کی کھیڑی اور مونچھ کو تاؤ دیتے ہوئے قابلِ دید ہوتے ہیں۔