حکمت مشرق و مغرب نے سکھایا ہے مجھے!

image

ہمارا معاشرتی نظام جس کا ایک اہم حصہ تعلیمی اداروں سے جڑا ہے، نہ جانے آج کس ڈگر پر جا رہا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ دور حاضر میں  معاشرتی تنزلی کیلئے لفظ "تباہی" معمولی درجہ رکھتا ہے۔ پاکستان میں سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنا انتہائی مشکل مانا جاتا ہے کیونکہ فیڈرل سروسز کے 12 اہم ادارے جس میں پولیس، فارن سروسز، ایڈمنسٹریشن سروسز، انکم ٹیکس، کسٹم، پوسٹل، ریوینیو، آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس اور کامرس اینڈ ٹریڈ یعنی بیوروکریسی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی باگ ڈور جن لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ سی ایس ایس جیسے سخت ترین امتحان سے گزر کر مذکورہ اداروں میں اپنا عہدہ سنبھالتے ہیں۔ سی ایس ایس میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد یہ لوگ براہ راست 17ویں سکیل کیلئے منتخب کئے جاتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں پاکستان کی کریم جنریشن سی ایس پی آفیسر بنتی ہے۔

اس وژن کے پس پشت قائداعظم محمد علی جناح (رحمتہ اللہ علیہ) کی وہ عظیم سوچ تھی جس کے تحت 1948ء کے اوائل میں ایک ایسا نظام رائج کیا گیا جس میں نوجوانوں کو بیوروکریٹس بنایا جانا تھا۔ ان کے مطابق ایسے متحرک خون کو ان اہم عہدوں پر بٹھایا جائے جو مثبت آئیڈیاز کے ذریعے ملک اور قوم کی خدمت کر سکیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکیں۔ ایسے لوگ اداروں میں معمور کئے جائیں جو عوام کے حقوق کی پاسداری کر سکیں، انہیں مضبوط بنا سکیں اور ان کی آواز سن کر بہترین لائحہ عمل اختیار کر سکیں۔ اسی لیے 14 اپریل 1948ء میں دورۂ پشاور کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح (رحمتہ اللہ علیہ) نے سول سروسز کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ" اگر آپ پاکستان کے وقار اور عظمت کو بلند کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے فرائض منصبی کو بغیر کسی دباؤ اور خوف وخطر کے سرانجام دینا ہوگا"۔ 

آپ کے سامنے ادارے اور اس کی بنیاد رکھنا اس لئے ضروری تھی کہ واضح ہو جائے کہ اس اہم ترین فرض کے ساتھ آج کیا ناانصافی برتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں سینٹرل سپیریئر سروس میں کامیابی کیلئے کئی اکیڈمیاں بھی بنی ہوئی ہیں جن کا مقصد مستقبل قریب کے آفیسرز کو وہ ماحول فراہم کرنا ہے جس سے وہ امتحان پاس کر سکیں اور کامیابی کے بعد اپنے آئیڈیاز کی عملی میدان میں عملدرآمد کروا سکیں۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ درسگاہ انسانی شخصیت، اس کی سوچ، کردار اور عمل سے کس قدر متصل ہوتی ہے کیونکہ اس دورانیے میں سیکھا گیا سبق زندگی بھر ساتھ رہتا ہے۔ چند روز قبل لاہور میں واقع سول سروس کمیشن اکیڈمی میں مسلمان طالب علموں کی جانب سے ہندوؤں کا مذہبی تہوار انتہائی جوش و خروش سے منایا گیا! اکیڈمی کے کھلے میدان میں موجود لڑکوں اور لڑکیوں نے خوب ہلا گلا کیا، ناچ گانا چلا، مسلمان بچوں نے اپنے آپ کو اور دوسروں کو مختلف رنگوں سے بھی رنگا اور انتہائی خوش اسلوبی سے ایک دوسرے پر پانی بھی پھینکا تاکہ کوئی کسر باقی نہ رہے!!! اصولی طور پر ایک دن قبل ہولی نائٹ کا بھی یقینی طور پر اہتمام کیا گیا ہوگا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ پاکستان سول سروس کمیشن کے ڈی جی صاحب کی چند وائرل ویڈیو سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ خود کس قدر آزاد خیالات کے مالک ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی ٹریننگ ہورہی ہے جن کی بنیادوں میں قائداعظم محمد علی جناح (رحمتہ اللہ علیہ) کا عظیم وژن تھا جسے آج ہم مٹی میں ملا رہے ہیں۔ اس لائق ترین خون کی ٹریننگ جس نے پاکستان کے اہم ترین اداروں کی سربراہی سنبھالنی ہے۔

کچھ احباب کی نظر میں یہ ایک عام سی سرگرمی تھی جس میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ مذہب کی طرف سے ایسی کوئی روک ٹوک نہیں اور اسلام ہمیں رواداری اور سلامتی کا سبق دیتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ جہاں تک بات دوسرے مذاہب کے احترام کی ہے تو وہ کس نے منع کیا؟ لیکن دوسرے مذاہب میں گُھسنے پر ہم کسے راضی کر رہے ہیں اور کس کے حکم کو پس پشت ڈال رہے ہیں؟ کیا نعوذ بااللہ ہم اللہ کریم سے زیادہ سمجھدار ہو گئے ہیں کہ جس نے ملت اسلامیہ کے الگ تشخص کو برقرار رکھنے کیلئے قرآن کریم میں الگ الگ راستے کا حکم فرما دیا؟ یہی چھوٹی سی مثال لے لیں کہ یہودیوں کے ہاں ہفتے کا دن اہم ہے، عیسائی اتوار کو مقدس مانتے ہیں جبکہ مسلمانوں کیلئے جمعہ کے دن کو اہمیت بخشی گئی۔ ہماری ایسی غیرذمہ دارانہ حرکتوں سے عام لوگوں پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا ایسے غیر ضروری اقدامات کرنے والا شخص جب اہم عہدے پر براجمان ہوگا تو اس سے کیسے نظریات کی توقع ہوگی؟ دور مت جائیے آپ کے سامنے کراچی میں معمور اسسٹنٹ کمشنر صاحب کی انتہائی اہم عہدے پر تقرری اور سوشل میڈیا پر وائرل تصاویر ہی ان کے نظریات عیاں کر رہی ہیں۔ عوام کو چھوڑیے آپ اور میرے گھر کے بچوں اور بڑوں میں کیا تاثر پھیلے گا کہ ہندوؤں کی ہولی، عیسائیوں کا ایسٹر اور یہودیوں کی عید فسح میں شرکت سے کوئی فرق نہیں پڑتا یا مسلمانوں کو بھی ان دنوں کو منانا چاہئیے؟

میں کوئی عالم یا فقہی نہیں ایک عام سا بندہ ہوں اور سادہ سی بات کرنا چاہتا ہوں کہ ایسی بے ہودگی دیکھ کر میرے حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دل کس قدر دکھا ہوگا؟ آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم کی وہ اُمت جسے اللہ کریم نے الگ کلمہ دیا، اس امت کو آج دوسرے مذاہب سے اس قدر کشش نظر آئی کہ اس طرف کھچے چلے جا رہے ہیں؟ خدارا کچھ خدا کا خوف کھائیں اور اگر اس بے خوفی سے یہی حالات جاری رہے تو آنے والے صرف 50 سالوں میں سیکولرازم کے بانیوں میں آپ کا اور میرا نام ہوگا کیونکہ دورِحاضر میں تعلیم پر وہ چھائے ہوئے ہیں، میڈیا پر ان کا راج ہے، معیشت ان کے قبضے میں ہے، ٹیکنالوجی میں وہ سب سے آگے ہیں اور ہمارے پاس کیا ہے؟ وہ لفظ شاید آپ کو تکلیف دے اس لئے میں چپ ہی رہتا ہوں۔ حالات ہمارے یہ ہیں کہ ایک رپورٹ کے مطابق اوسطاً یہودی سال میں کم از کم 72 کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اور ہم مسلمان پورے سال میں صرف 6 منٹ! جہاں تک آج کے موضوع کی بات ہے تو یہ بھی واضح کر دوں کہ اس میدان میں بھی ہم بنگلہ دیش سے پیچھے ہیں کیونکہ پائیدار ترقیاتی اہداف کیلئے اقوام متحدہ نے 2015ء میں جب ایم ڈی جی کو ایس ڈی جی میں تبدیل کیا، عین اسی سال بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد، ایم ڈی جی کا سپیشل ایوارڈ حاصل کرچکی ہیں، اور ہمیں مزید محنت کیلئے 2030ء تک کا ٹائم دے کر دوبارہ ایس ڈی جی میں واپس کر دیا گیا ہے۔