اسلاموفوبیا ڈے

image

 اسلاموفوبیا لفظ ’اسلام‘ اور یونانی لفظ ’’فوبیا‘‘ یعنی ڈر جانا کا مجموعہ ہے۔ مغربی ممالک اسلاموفوبیا سے ’اسلامی تہذیب سے ڈرنا‘ اور ’نسلیت مسلم گروہ سے ڈرنا‘ کے طور پر واقف ہیں۔ اکثر غیر مسلموں کو اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے ذریعے اشتعال انگیزی اور اسلامی تعلیمات کے خلاف زہر افشانی کر کے ان کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرتیں بھر دی جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں اسلام کا خوف داخل ہوتا ہے، اس کو اسلاموفوبیا کہا جاتا ہے۔ اسلاموفوبیا کو ایک جرم تسلیم کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں ہر سال 15مارچ کو "اسلاموفوبیا ڈے" منانے کی قرار داد منظور کی گئی ہے۔ 

اسلاموفوبیا نسبتاً ایک جدید لفظ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے تیار کیا گیا ہے۔ اس اصطلاح کے استعمال کا آغاز فرانسیسی زبان میں 1910ء میں جبکہ انگریزی زبان میں 1923ء میں ہوا، لیکن 20ویں صدی کی 80 اور 90 کی ابتدائی دہائیوں میں اس کا استعمال بہت ہی کم رہا۔ 11 ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ڈرامائی حملوں کے بعد کثرت سے اس لفظ کا استعمال ہوا۔ اسلاموفوبیا کی وجہ سے مغربی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو ایک دہشت گرد گروہ کے طور پر اور نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ انگریزی زبان میں مستعمل یہ لفظ دنیا کی بیشتر زبانوں میں اسلام سے خوف و دہشت کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 15 مارچ کو 'انٹرنیشنل ڈے ٹو کامبیٹ اسلاموفوبیا‘ یعنی اسلاموفوبیا مخالف عالمی دن منانے کی پاکستان کی طرف سے پیش کردہ قرارداد منظور کی تھی۔ تنظیم اسلامی تعاون (او آئی سی) کے 57 رکن ممالک کے علاؤہ چین اور روس سمیت 8 دیگر ملکوں نے بھی قرارداد کی تائید کی تھی۔ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقت ہے اور جنرل اسمبلی کے اراکین نے نشان دہی کی کہ یہ رجحان بڑھ رہا ہے اور اس کا ازالہ کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ اسلاموفوبیا کے نتائج نفرت انگیز تقریر، تفریق اور مسلمانوں کے خلاف جرائم ہیں اور یہ دنیا کے کئی خطوں میں پھیل رہا ہے۔ یہ مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور عقائد کے خلاف ہے اور اس کے نتیجے میں اسلامی دنیا میں شدید تکلیف محسوس کی جا رہی ہے۔

قرارداد منظور کیے جانے کے بعد اقوامِ متحدہ کے تمام رکن ممالک، اس کے متعلقہ اداروں، دیگر علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں، سول سوسائٹی، نجی شعبہ اور مذہبی تنظیموں کو مناسب انداز میں عالمی سطح پر یہ دن منانے کی دعوت دی گئی ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ بھارت نے اس قرارداد پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک مخصوص مذہب کے سلسلے میں خوف اس سطح تک پہنچ گیا ہے کہ اس کیلئے ایک بین الاقوامی دن منانے کی ضرورت پڑ گئی۔ اقوامِ متحدہ میں بھارتی سفیر ٹی ایس تریمورتی کا کہنا تھا کہ اسلاموفوبیا کے حوالے سے قرارداد کی منظوری کے بعد دیگر مذاہب کے متعلق بھی اسی طرح کی قراردادیں آسکتی ہیں اور اقوامِ متحدہ ایک مذہبی پلیٹ فارم میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ 

اس تمام تر کاوش کا سہرا اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان کو جاتا ہے، جنہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ناموسِ رسالت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا مقدمہ بڑے جرأت مندانہ انداز سے پیش کیا تھا۔ اس اقدام سے دنیا بھر کو اسلام کی نرم مزاجی سے آشنا ہونے کا موقع ملا ہے مگر اس کیلئے امتِ مسلمہ یکجائی کے ساتھ دنیائے عالم کو بتائے کہ جہاد اور دہشت گردی میں کیا فرق ہے؟ مختلف پلیٹ فارمز پر کنونشن وغیرہ کے ذریعے مغربی دانشوروں کو اسلامی احکامات کی پیروی کے فوائد بتائے جائیں اور مسلمان قوم کے ساتھ ہونے والے مظالم سے واقف کرایا جائے مگر اس سے پہلے ہمیں اپنے اندر سے اسلاموفوبیا ختم کرنے کی ضرورت ہے، جب تک ہم اسلامی تعلیمات کو خود پر نافذ کر کے اسلام کا حقیقی نمونہ پیش نہیں کرتے ہماری زبان میں تاثیر کیسے آ سکتی ہے؟