ماہ مقدس کی آمد

image

"اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘(البقرہ 183)۔ اس سے آگے آیت نمبر 185 میں اللّٰہ پاک نے ارشاد فرمایا: "رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اُتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، ﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لیے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔‘‘ البقرہ (185)

صوم کے لغوی معنی رک جانے اور پرہیز گاری کے ہیں۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ چلنے پھرنے، کھانے پینے، بات کرنے سے رک جانا روزہ ہے۔ یعنی مسلمان سحری تا غروب آفتاب تک کھانے پینے، لغو باتوں اور جماع سے باز رہتا ہے۔ اس ماہ مقدس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک نیکی 10 نیکیوں کے برابر ہو جاتی ہے۔ پوری دنیا کے مسلمان رمضان المبارک کی تیاری کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ سحری و افطاری کے حوالے سے بلا امتیاز و تمیز تیاریاں کی جاتی ہیں۔ روزہ ارکان اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ رمضان المبارک میں قرآن مجید مکمل ہوا اور اس میں ایک ایسی رات بھی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل قرار دی گئی ہے۔

احادیث مبارکہ میں رمضان المبارک کی اہمیت فصاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:"تمہارے پاس ماہ رمضان آیا۔ یہ مبارک مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کیے ہیں۔ اس میں آسمانوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور بڑے شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔ اس (مہینہ) میں ﷲ تعالیٰ کی ایک ایسی رات (بھی) ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو اس کے ثواب سے محروم ہو گیا سو وہ محروم ہو گیا۔‘‘(نسائی:142)۔

ظلم سے رک جانا بھی روزہ ہے، جھوٹ بہتان سے رک جانا بھی روزہ ہے، حلال کھانا اور حرام سے بچنا بھی روزہ ہے، غصہ تھوک دینا اور صلہ رحمی اختیار کرنا بھی روزہ ہے، یتیم بچوں کی کفالت، مساکین کی تونگری، محتاجوں کی مدد، بے سہاروں کا مضبوط سہارا بننا بھی روزہ ہے۔ بہتات نعائم کے باوجود پابند حدود رہنا، ہوائے نفس کے خلاف سینہ سپر رہنا بھی روزہ ہے۔ روزہ ہے بھوکوں کے درد کو محسوس کرنے کا نام، روزہ ہے قادر مطلق کے حضور توبہ کر کے نئے سرے سے تعلق بااللہ قائم کرنے کا نام، روزہ ہے حصول رزق حلال کا نام، روزہ ہے ظالم کا ہاتھ پکڑنے کا نام۔ کیا سمجھتے ہو روزہ بھوک پیاس کا نام ہے؟ 

یوں تو اسلام سارا سال ہی پسے ہوئے طبقات کے ساتھ تعاون کا درس دیتا ہے، تاہم ماہ مقدس میں زیادہ رغبت دلائی گئی ہے کہ نعائم فطرت کی قلت کا شکار لوگوں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ کہیں افطاری کروانے پر پورے روزے کا ثواب ہے تو کہیں صدقات و خیرات کا ثواب 70 گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ معاشرے میں امیر و غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج معاشی ہیجان کا باعث بنتی ہے۔ دین فطرت نے معاشی ہموارہ کیلئے زکوٰۃ و عشر کے ذریعے دولت کی تقسیم متوازن رکھی ہے تاکہ غریب و نادار اور مفلس الحال طبقے کا معیار زندگی بہتر رہے۔ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنا نہایت مشکل اور جرائم میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ صاحب ثروت افراد کی ذمہ داری ہے کہ اللّٰہ پاک کے دیے ہوئے رزق سے ضرورت مندوں کی مدد کی جائے۔ 

پاکستان الحمدللّٰہ خیرات کرنے والے ملکوں میں سرفہرست ہے۔ جذبہ انسانی سے مزین مسلمان جب حدود اللّٰہ کی پیروی کرتے ہیں تو زندگی انتہائی پرمسرت مواقع فراہم کرتی ہے۔ چہروں پہ اطمینان دراصل رحمت خداوندی کے تحفے کے طور پر چہروں کی زینت بنتا ہے۔ بھوک مٹانا یا مسلمان بھائی کی تکلیف دور کرنا پسندیدہ اعمال میں شامل ہے۔ ہمیں افطار تقریب میں بلا امتیاز و تمیز تمام مسلمانوں کو دعوت دینے کی اشد ضرورت ہے۔ سیاسی افطار پارٹیوں کی بجائے اگر بلا تفریق اہتمام کیا جائے تو وہ دکھلاوے کی بجائے روح رمضان کے عین مطابق ہوگا۔ یوں حکمت رمضان سمجھنے اور سمجھانے میں آسانی ہوگی اور مسلمان ایک عالمگیر جذبے کے تحت انسانی خدمت کی بجا آوری کریں گے۔