فسادِقلب و نظر ہے فرہنگ کی تہذیب

image

ماضی کی طرح دور حاضر میں بھی مغرب انتشار کی پالیسی اور فسادی حرکات میں سبقت حاصل کئے ہوئے ہے۔ آج اقوام عالم میں اسلاموفوبیا پھیلا کر نئی نفرتوں کو مضبوط کیا جارہا ہے۔ لفظ اسلاموفوبیا یونانی لفظ فوبیہ کا مجموعہ ہے، فوبیہ کا مطلب ہے ڈر جانا، اس سے مراد یہ بھی ہے کہ غیر اسلامی تہذیب سے ہر وقت ڈرے رہنا، دل کے اندر غیر مسلموں کا خوف و ہراس پیدا ہو جانا، اسلام کے خلاف اکثر غیر مسلموں کو بھڑکائے رکھنا اور اسلامی تعلیمات کے خلاف بھڑکا کر ان کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرتیں پھیلانا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے باطن یعنی دلوں میں اسلام کا خوف داخل ہو جاتا ہے، جس کو اسلاموفوبیا کہا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کا رجحان دن بدن بڑھ رہا ہے، بنیادی طور پر مغرب میں اسلاموفوبیا مسلسل بڑھ رہا ہے اور یہ 9/11 سے بھی بہت پہلے کا ہے۔ واضح طور پر پوری کائنات میں مسلمانوں کے خلاف تععصب پایا جاتا ہے۔ اسلام کے خلاف حیرت انگیز نفرتیں پھیلائی جاتی ہیں جو ایک تلخ حقیقت ہے، مسلمانوں کو اکثر غیر قانونی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہاں تک کہ کچھ ممالک میں اپنا لباس پہننے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ اسلاموفوبیا مختلف اشکال میں ظاہر ہو رہا ہے، چاہے وہ ساختی ہو، نظریاتی، مذہبی یا ثقافتی ہو۔

عالمی سطح پر اسلاموفوبیا عروج پر جا رہا ہے جیسا کہ دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے اور تارکین وطن پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملے کیے جا رہے ہیں، مسلمان خاندانوں پر حملے ہو رہے ہیں اور کچھ ریاستوں میں حجاب پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ اسلاموفوبیا کو خطرہ مانتے ہوئے نیوزی لینڈ میں مسجد کا حادثہ مجھے یاد آ گیا جو انتہائی افسوسناک تھا۔ یہ حادثہ 15 مارچ 2019ء کو نیوزی لینڈ کی مسجد نوری میں پیش آیا جہاں ایک عیسائی "برنیٹن ٹیرنٹ" نامی شخص مسجد میں داخل ہوا اور 50 سے زائد افراد کو شہید کر دیا، نمازیوں کو محض مسلمان ہونے کی وجہ سے شہید کیا گیا۔

دوسری جانب بھارت میں ہر روز مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے، مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو مسمار کیا جا رہا ہے، مسئلہ کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ بھی آپ کے سامنے ہے، اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کو قبلہء اول سے دور رہنے پر مجبور کر رہے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر (نعوذ بااللہ) خاکے بنائے جا رہے ہیں، ایسے کئی واقعات موجود ہیں جن پر تاریخ گواہ ہے۔ پچھلے سال 2022ء میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا 48واں اجلاس اسلاموفوبیا پر منعقد کیا گیا تھا، اجلاس میں تقریباً ہر رکن ملک کے وزیر خارجہ نے شرکت کی تھی، او آئی سی کا اجلاس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہوا تھا، اس کے بعد 15 مارچ اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن کے طور پر منایا جا رہا ہے، کرائسٹ چرچ مسجد میں ہونے والے سانحہ کے بعد دنیا بھر میں متعدد اسلاموفوبک حملے ہوئے ہیں۔ 

سال 2023ء میں 15 مارچ پاکستان کو عجیب و غریب طریقے سے منایا گیا، موجودہ سیاسی صورتحال کی وجہ سے 15 مارچ کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا، سیاسی رہنما ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں، سیاست کیلئے عوام اور پولیس کے درمیان بے تحاشا جھڑپیں ہوئیں، آنسو گیس، واٹرکینن اور ڈنڈوں کا بھی استعمال کیا گیا جس سے کئی پولیس اہلکار اور عوام شدید زخمی ہوئے، اگر آنے والے دنوں میں ایسا ہوتا رہا تو اسلاموفوبیا پھر کس طرح ختم کر پائیں گے؟ پاکستانی عوام کو بالخصوص ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتے ہیں کہ اس دن کو عالمی طور پر جوش و خروش سے منایا جائے اور ہر وقت اسلاموفوبیا کے خاتمے کیلئے تیار رہنا چاہیئے۔ اس جدید دنیا میں پرامن بقائے باہمی کیلئے کثیرالنسلی اور کثیرالثقافتی معاشرے کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت ہے۔