اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

image

مرزا اسداللہ خان غالب نے شاید پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کو قبل از وقت بھانپتے ہوئے یہ شعر کہا تھا کہ:  

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا 

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

کچھ ایسا ہی ڈرامہ آج کل ہمیں موجودہ حکومتی اتحاد کی جانب سے دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایک طرف عمران خان کی چلتی ہوئی حکومت پر شب خون مارتے ہوئے رجیم چینج کر دیا گیا تو دوسری طرف پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ عمران خان نے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر عام انتخابات کیلئے دباؤ ڈالنے کی خاطر پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیوں کو تحلیل کیا، آئین کے مطابق ان اسمبلیوں کے انتخابات 90 روز کے اندر ہونا تھے مگر اس پر ٹال مٹول سے کام لیا گیا۔

سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے بعد صدر نے الیکشن کمیشن کی مشاورت کے بعد 30 اپریل کی تاریخ دے دی مگر پنجاب کی نگران حکومت نے سادگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک جماعت مسلم لیگ (ن) کو اپنی سیاسی مہم چلانے کی حکومتی پروٹوکول کے ساتھ اجازت دے دی لیکن پاکستان تحریکِ انصاف کے ہاتھ باندھ کر لیول پلیئنگ فیلڈ مہیا کرنے کی کوشش کی گئی۔ حفاظتی ضمانت منظور کئے جانے اور ہائی کورٹ لاہور کے حکم کے باوجود سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو گرفتار کرنے کیلئے آنسو گیس، واٹر کینن اور اسلحہ کا استعمال کیا گیا، کارکنان کی گرفتاریاں ہوئیں اور ایک سادہ لوح انسان ظلِ شاہ کو قتل کر دیا گیا۔ صحافی برادری اور سوشل میڈیا پر حقیقت دکھانے والے افراد کو دہشتگردی کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا، خود عمران خان پر قتل، اقدام قتل، دہشت گردی اور غداری سمیت 143 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ اب بقول صحافی و اینکر پرسن عمران ریاض خان کہ اس حکومت کی یہ اوقات نہیں کہ اس طرح کے مقدمات بنائے، اگر ایسا ہے تو پھر کونسی طاقت یہ کام کروا رہی ہے؟

عمران خان کے بھانجے اور معروف تجزیہ نگار حفیظ اللہ نیازی کے بیٹے حسان نیازی کو کراچی کی عدالت سے ریلیف ملتا ہے تو اسی لمحے صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر نوشہرہ میں مقدمہ دائر کر دیا گیا جب عدالت میں حسان نیازی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ مدعی خود ایک عادی مجرم ہے اور اس وقت بھی جیل میں سزا کاٹ رہا ہے تو عقل دنگ رہ گئی کہ ہماری جیلیں اتنی ترقی کر گئی ہیں کہ وہاں موجود قیدی اتنے باخبر ہیں کہ انہیں جیل کے اندر علم ہوجاتا ہے کہ کون افراتفری پھیلا رہا ہے؟ یہ گھسا پٹا پرانا اسکرپٹ ہے جو 1970ء سے چلا آ رہا ہے، مادرِ ملت رحمۃ اللّٰہ علیہا کے ساتھ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں کیا گیا تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہا کو بھی غدار قرار دیا گیا تھا اور آپ پر بھی پانی چوری وغیرہ کے مقدمات درج کیے گئے تھے۔ اب اس سارے کھیل میں شریک حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے اپنی سادگی دکھاتی رہی ہے اور عوام بھی اتنی سادہ ہے کہ ہر بار ان کی سادگی پر مر جاتی ہے۔ 

اب آئیے ذرا مقننہ اداروں کی سادگی پر نظر ڈالتے ہیں، ہندوستان پر قبضے کے فوراً بعد انگریزوں نے وسیع پیمانے پر قانون سازی کا کام کیا اور متعدد بنیادی قوانین وضع کیے۔ عدالتی کارروائیوں کو ضبط میں لانے کیلئے ضابطۂ دیوانی اور ضابطۂ فوجداری مرتب کر کے نافذ کر دیے گئے، عدالتوں کی اعانت کیلئے ہندوستان میں پہلی مرتبہ پیشۂ قانون وجود میں لایا گیا، انگریز چاہتے تھے کہ وہ ایسا نظام وضع کریں جس سے ان کی حکومت کی بنیادیں مستحکم ہو سکیں۔ اس مقصد کے حصول کیلئے ان کی اپنی زبان اور اپنے قوانین ہی موزوں ثابت ہو سکتے تھے، لہٰذا انگریزوں نے اولین فرصت میں نئے نظام کے قیام کی کوششیں تیز کر دیں، مطالعے اور تجزیے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انگریزی دور کا نظامِ عدل پیچیدہ اور مہنگا ہے،‘ نالشوں میں اضافے کا باعث ہے‘ مقدمہ بازی کے لامتناہی سلسلے کو متحرک رکھنے میں معاونت کرتا ہے اور پھر یہ نظام انصاف مہیا کرنے میں اتنی تاخیر روا رکھتا ہے کہ مقدمہ بازی ختم نہیں ہوتی مگر نالش کنندگان کی زندگیاں ختم ہو جاتی ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد جس ادارے کی اصلاح کی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ فکر کرنی چاہیئے تھی وہ عدلیہ کا ادارہ ہے۔ پولیس کی بدعنوانی اپنی جگہ لیکن عدلیہ کا ادارہ انصاف فراہم کرنے اور اپنے آپ کو مفادات، با اثر عناصر کے دباؤ اور خود حکومت وقت کی دراندازیوں سے بالا رکھ کر اصلاح احوال کیلئے جو کردار ادا کر سکتا ہے وہ اس میں کامیاب نہیں ہو رہا ہے۔ اس طرح کی سادگی ماضی قریب میں آزاد ہونے والے میڈیا میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں حق کی بات کرنا تو درکنار عوامی مسائل کا ذکر بھی نہیں کیا جاتا، بس اپنے اپنے پسندیدہ یا نوازش کرنے والے لیڈران کا دفاع کیا جا رہا ہے، ان سب اداروں کا تقدس پامال کرنے والی چند کالی بھیڑیں ہیں جو ایک مافیا کی شکل اختیار کر کے ملک کے ہر ادارے اور ہر اعلیٰ منصب پر فائز ہو چکی ہیں، یہ ذمہ داری اب اس عوام کی ہے کہ اس سادگی کا قلع قمع کر کے آئندہ نسلوں کے مستقبل کو روشن بنائیں۔