جدت اور انداز تربیت

image

بچوں کی کفالت  اور ان پر خرچ کرنے کو پرورشِ اولاد کہتے ہیں۔ اولاد کی اچھی یا بری تربیت کا دارومدار والدین کی پرورش اور نگہداشت پر ہوتا ہے جس میں ان کا تحفظ، صحت بخش غذا، صاف ستھرا لباس، پاکیزہ ماحول اور علاج معالجے کے ساتھ ساتھ ان کی صحیح خطوط پر ذہن سازی، اخلاق و کردار اور مناسب تعلیم و تربیت شامل ہے۔ فی زمانہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر بچوں کو عہد جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور ان کا معیار زندگی بلند کرنے کی خاطر جہاں ماں باپ دونوں ہی مصروف رہتے ہیں اور صبح و شام فرصت کے لمحات میں بھی موبائل فون یا سوشل میڈیا کی نظر کر دیتے ہیں۔ وہیں اولاد مناسب توجہ اور تربیت سے محروم رہتی ہے اور ان کا اپنے والدین سے انس و قربت دوری میں بدلنے لگتی ہے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں اسمارٹ موبائل فونز جس تیزی سے پھیلے ہیں، تاریخ میں کبھی وبائیں بھی شائد اس رفتار سے نہ پھیلی ہوں۔ دور جدید میں موبائل فونز اور سوشل میڈیا ایپس نے جس طرح اپنی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ انسان بعض اوقات ان ویڈیوز میں اس حد تک مستغرق ہو جاتا ہے کہ اسے آس پاس کی پرواہ ہی نہیں ہوتی۔ اس کی تازہ اور زندہ مثال لاہور میں پب جی کھیلتے 2 نوجوانوں کا ٹرین تلے کچلا جانا ہے۔ مائیں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے اپنی بھرپور کوشش کرتی ہیں۔ تاہم سوشل میڈیا پر آئے دن ایسی ویڈیوز کی بھرمار ہوتی ہے جس میں مائیں موبائل فونز استعمال کرتے ہوئے بچوں سے بیگانہ ہو جاتی ہیں۔ 

والدین کی بھرپور توجہ نہ پانے والے بچوں کی شخصیت کے ساتھ ساتھ ان کی نفسیات بھی متاثر ہوتی ہے۔ ایسے بچے والدین کی محبت اور ان کی تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں۔

والدین اپنی مصروفیات کے باعث بچوں کی پرورش میں کوتاہی برتتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے بچے ڈرے، سہمے، عدمِ تحفظ کا شکار اور خود اِعتمادی سے محروم رہتے ہیں۔ والدین کی نگرانی سے محروم بچے اکثر صحت کے مسائل سے بھی دوچار رہتے ہیں۔ والدین کی عدم توجہی بچوں میں نظم و نسق کے فقدان میں اضافہ کرتی ہے۔ ایسے بچے غیر ضروری سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہوئے عملی زندگی میں ناکامی سے دوچار ہو تے ہیں۔ بعض اوقات بچوں میں احساس محرومی بڑی حد تک سرایت کر جاتا ہے جس کا اگر علاج نہ کیا جائے تو مرض شدید ذہنی انتشار کا باعث بنتا ہے۔

والدین کی شدید مصروفیات کی وجہ سے بچوں میں ذہنی انتشار واضح طور پر محسوس ہونے لگا ہے۔ جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں بچوں نے ایک جلوس کے ذریعے والدین کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ جلوس کے شرکاء نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پہ تحریر تھا کہ موبائل فونز سے کھیلنے کی بجائے ہم سے کھیلو۔ سائیکالوجسٹس کا ماننا ہے کہ جہاں بچے موبائل اڈکشن کا شکار ہوئے ہیں۔ وہیں والدین بھی اس کا شکار ہوئے ہیں۔ وہ اپنے بچوں پر مناسب توجہ نہیں دے رہے۔ بچے عدم توجہی کی وجہ سے فرسٹریشن کا شکار ہو رہے ہیں جو انہیں مستقبل قریب میں شدید ذہنی بیماریوں میں مبتلا کرے گی۔

بچوں کو پر سکون رہنے کے لئے بنیادی طور پر والدین کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب وہ خود انہیں غیر آسودہ اور تناؤ کا شکار دیکھتے ہیں تو وہ ذاتی اعتماد سے محروم ہو کر اطمینان و سکون کی نئی راہیں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ نتیجتاً بچے والدین سے دوری اختیار کر لیتے ہیں۔ بچپن کا ابتدائی دور بچوں کی پرورش کے لحاظ سے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس میں ارد گرد کا ماحول مثلاً گھر، والدین، خاندان اور رشتے دار بچے پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اس لئے والدین کو بہتر حکمت عملی اپناتے ہوئے بچوں کے سامنے اچھے الفاظ کا استعمال اور فضول گفتگو سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ وہ ان کے پہلے استاد بطور رول ماڈل ہوتے ہیں۔