اکیسویں صدی میں پاکستان کو درپیش مساٸل اور ان کا حل

image

تحریک پاکستان کے دوران بانٸ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے خطبات کے دوران پاکستان کے حکومتی اسٹرکچر کو بڑے واضح انداز میں بیان کیا تھا، جو کہ اسلامی نظریہ اور جمہوری اخلاقیات پر مشتمل تھا۔ آپ نے ریاست کے ساتھ وفاداری کو مذہب پر فوقیت دی تھی اور مذہبی بنیاد پر ریاست کے شہریوں کو فوقیت دینے کی بجائے برابری کی بات بھی کی تھی۔ بدقسمتی سے آج پاکستان کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ پاکستان کے باسی اپنا راستہ بھول چکے ہیں۔

آج 21سویں صدی میں جہاں پاکستان کو بیرونی مسائل کا سامنا ہے وہیں پر یہ اندرونی خلفشار کا شکار بھی ہوا ہے۔ اس بدلتی دنیا میں  جہاں طاقت کا سر چشمہ امریکہ ہے وہیں پر اب چاٸنہ ایک اُبھرتی ہوئی معیشت کے طور پر اپنا سر اٹھا چکا ہے۔ بہت سے سیاسی ماہرین اور بین الاقوامی تعلقات کے پنڈت چائنا کو اگلی سپر پاور مان چکے ہیں اور اب تو بوسٹ امریکہ ورلڈ کی باتیں بھی شروع ہو گئی ہیں۔ اس ساری صورتحال میں اب بین الاقوامی سطح پر بھی اور علاقائی سطح پر اتحادیوں کے نئے گروپس بننا شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستان کو بھی اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک قابل عمل اسٹریٹجی اپنانے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے  ہمیں تو اس اسٹریٹجی میں عوام کو سامنے رکھنا چاہیے، سادہ الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی عوام تک اُن کی بنیادی ضروریات پہنچائی جائیں۔ ان بنیادی ضروریات میں اچھی صحت، صاف پانی، کوالٹی تعلیم، رہائش اور قانون کی حکمرانی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان ایک عام شہری کے سیاسی و سماجی حقوق کو پورا کرنے کی بھی پابند ہے۔ سب سے اہم بات جو کہ حکومت پاکستان کو اس گرینڈ اسٹریٹجی کا حصہ بنانا چاہیے وہ یہ کہ ملک کے ہر حصے میں مذہبی منافرت کا خاتمہ ہے۔ ایسے عناصر جو مذہبی شدت پسندی کو فروغ دیتے ہیں ان کا قلعہ قمع کرنا چاہیے۔

دوسرے نمبر پر حکومت پاکستان کو ملک کی معیشت کو رکھنا چاہیے۔ غربت کا خاتمہ، زیادہ سے زیادہ ملازمت کے مواقع، چھوٹے کاروباروں کی ترویج، منی لانڈرنگ کا خاتمہ اور ٹیکس سسٹم کو بہتر بنانے جیسے اقدامات لینے کی ضرورت ہے جن کے ذریعے ملک کی معیشت کو صحیح راستے پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ معاشی خوشحالی کسی ملک کی اندرونی سیکیورٹی کی ضامن ہوتی ہے۔ جب کوٸی ملک معاشی طور پر خوشحال ہوگا تو لوگ ان جرائم کی طرف ماٸل نہیں ہوں گے جو انہیں معاشرتی بگاڑ کی طرف لے جاتے ہیں۔

 ان دو اندرونی مسائل پر قابو پانے کے علاوہ حکومت پاکستان کو تیسرے نمبر پر اپنے ہمساٸیوں بالخصوص بھارت کے ساتھ بات چیت کے ذریعے اپنے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے چاہے وہ کشمیر اور جونا گڑھ کا مسلہ ہو یا سندھ طاس معاہدہ۔ ایک طرف پاکستان کو بات  چیت کے ذریعے اِن مسائل کا حل نکالنا ہوگا جبکہ دوسری طرف انڈیا کو خطے کی سپر پاور بننے سے روکنا ہوگا۔ اگر پاکستان ایسا کرنے سے رہ جاتا ہے تو اس کو دور رس نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

چوتھے اور آخری نمبر پر جو سب سے اہم بات جو حکومت پاکستان کی اس گرینڈ اسٹریٹجی کا حصہ ہونی چاہیے وہ یہ کہ کسی سے تعلقات قائم رکھتے ہوئے اپنے قومی مفاد کو مقدم رکھنا ہے۔ کسی بلاک کا حصہ بننے کی بجائے ہر وہ کام کریں جو ہمارے ملک کے لئے اچھا ہو اور ہر اس کام سے اجتناب کیا جائے جو ہمارے ملک کے لٸے برا ہو۔ اس میں انڈیا کی مثال لی جا سکتی ہے وہ امریکہ کا اتحادی ہونے کے باوجود روس سے سستا تیل لے رہا ہے اور ہمیں امریکہ بہادر نے تھوڑی سی آنکھیں دکھائیں تو ہم دبک کر بیٹھ گئے۔ ہمیں اگر اس کسمپُرسی کی حالت سے نکلنا ہے تو ہمیں اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے۔