بیمار نظام کے کندھے پر چیف صاحب کا دستِ شفقت

image

بحثیت ایک مسلمان الحَمْدُ ِلله میرا یہ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ جَلَّ شَانَہْ اور اس کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا نام اگر کسی بھی کام کے آغاز میں لے لیا جائے تو اس میں برکت آ جاتی ہے حتیٰ کہ اگر کسی مریض پر بھی پڑھ کر پھونکا جائے تو اس کی شفاء کا وسیلہ بن جاتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم) کے نام پر بننے والا اسلامی جمہوریہ پاکستان 75 سال سے بابرکت نہیں ہو سکا؟ اس کی وجہ جاننا کوئی ٹرگنومیٹری جیسا مشکل نہیں، ایک غیر متعصبانہ اور حقیقت پسندانہ سوچ کا ہونا لازمی ہے۔ 14 اگست 1947ء کو یہ ملک تو معرضِ وجود میں آ گیا تھا مگر اس کو چلانے والے نظام کا وجود نہیں بنانے دیا گیا۔ گو کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ نے بڑے کھلے الفاظ سے بتا رکھا تھا کہ پاکستان میں اسلامی جمہوری نظام ہوگا مگر اس کے عملدرآمد کا ان کو وقت نہیں مل سکا۔

بیرونی دشمنوں سے مقابلہ کیا تھا مگر ابھی اندرونی دشمنوں کو بے نقاب کرنا باقی تھا کہ اس نظام کو قائدین رحمۃ اللہ علیہم کی یکے بعد دیگرے لاعلاج مرض میں مبتلا کر دیا۔ نظام اتنے بڑے حادثات کو برداشت نہ کر سکا اور کوما میں چلا گیا، اس کے سامنے اس کے چیتھڑے اڑا دیے گئے مگر اس کی بے بسی نے نظام کو چیخ و پکار تک نہ کرنے دی۔ وہ طبقہ جس میں علماء، مشائخ، اداروں کے سربراہان، سیاست دان، نام نہاد لبرل، سول سوسائٹی، ججز اور جاگیر دار وغیرہ سب شامل تھے جو تحریکِ آزادی کے مخالف تھے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اہم پوسٹس پر قبضہ کرلیا جن پر بعد میں ان کی اجارہ داری قائم ہوگئی۔ یہ طبقہ اب ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکا ہے اور نظام کے ہر شعبہ پر اس مافیا نے اپنا تسلط جما لیا ہے۔ اس مافیا نے نہ صرف نظام کو فزیکلی مفلوج کر دیا بلکہ کسی بھی قوم یا نظام کے سرچشمۂ طاقت یعنی ذہنی آزادی کو بھی پابندِ قفس کر دیا۔

وہ سوچ جس کو 90 سال انگریز اور ہندو سامراج قید نہ کر سکے، نظام کے بیمار پڑنے سے اس سوچ نے بھی کبھی کاروبار تو کبھی روٹی کپڑا اور مکان تو کبھی ترقیاتی منصوبوں کے عوض قید ہونا پسند کر لیا۔ حتیٰ کہ اس سوچ نے غلامی قبول کرتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ ان تمام سہولیات کی نسبت تعلیم، صحت اور انصاف کہیں زیادہ بہتر انعام مل سکتا تھا۔ جب بیوروکریسی، سیاسی رہنماؤں، ججز، اسٹیبلشمنٹ اور اساتذہ نے تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے نظام کے پیروکاروں کی سوچ کو قید کرنا شروع کر دیا تو ان کے منجھلے بھائی مذہبی رہنماؤں نے اپنا کردار سب سے احسن طریقے سے انجام دیا اور قوم کی مرکز سے علیحدگی کرا دی۔ مرکز سے مراد اللہ تعالیٰ اور رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ہیں، یعنی قرآن و سنت کی غلط تشریحات کر کے قوم کو ایک غلط ٹریک پر چلا دیا گیا۔ جائز کو ناجائز اور ناجائز کو جائز قرار دیا، اس مافیا کے سب سے لاڈلے فرزندان نام نہاد مشائخ نے اپنے آباؤاجداد کی پاکیزگی اور مقام کا سودا کیا اور وجودِ انسانی کے مرکز کو تباہ کر دیا۔

اب آپ میرے آخری جملے پر سب سے زیادہ متجسس ہوں گے کہ مشائخ اور مرکزِ انسان یعنی دل کا نظام کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ تو پھر جانیے کہ برِصغیر پاک و ہند میں اسلام کی تبلیغ اولیائے کاملین رحمۃ اللّٰہ علیہم نے کی، اولیاء کرام رحمۃ اللّٰہ علیہم نے یہ فریضہ کسی جنگ سے نہیں بلکہ انسان کو اس کی حقیقت سے واقف کرا کے کیا تھا۔ انسان کی حقیقت یہ ہے کہ یہ تو گندے قطرے کی پیداوار ہے اور نہ ہی سوشل اینمل (حیوانِ ناطق) ہے بلکہ انسان تو بیعت اللّہ (اللہ تعالیٰ کا گھر) ہے۔ سورۃ الزاریات کی آیت نمبر 21 میں ارشاد ہوتا ہے کہ "اور میں تمھاری جانوں کے اندر موجود ہوں کیا تم نہیں دیکھتے۔" جب انسان کو اس کے اصل سے بھی نا محرم کر دیا گیا تو نظام کی روح تڑپ اٹھی اور اس نے ذرا سی اٹھنے کی کوشش کی مگر اس کو بار بار بے ہوش کر دیا جاتا۔

آخر کار نظام کو ہوش آ گیا اور اس نے بپھر کر اس مافیا کو بہا کر لے جانا چاہا تو مافیا نے مل کر پی ڈی ایم کا حفاظتی بند باندھ دیا۔ جب نظام اس بند کی دیواروں کو بھی توڑ کر آگے بڑھنے لگا تو سامراجی طاقتوں نے بکاؤ میڈیا کو اپنے پروپیگنڈہ پر لگایا مگر کام نہ بن سکا، تب رجیم چینج آ گیا اور نظام ایک بار پھر منجی (بیڈ یا چارپائی) پر جا گرا۔ مگر اب کے بار نظام کی خوش قسمتی کہ نظام کے پیروکاروں کی سوچ جاگ اٹھی اور اپنے حقوق کی پامالیوں کا جواب طلب کر لیا، نظام نے پھر اللہ تعالیٰ جل جلالہ سے مدد طلب کی تو آخر اللہ تعالیٰ نے نظام کی دعائیں قبول کیں اور چیف جسٹس صاحب کی صورت میں اس کو مددگار عطا کر دیا۔ نظام نے اس مدد کو اپنا دکھڑا سناتے ہوئے کہا کہ

 اِدھر نکلے اُدھر ان کو خبر ہو

‏کوئی آنسو تو ایسا معتبر ہو

بالآخر نظام کی آہ و پکار کو چیف صاحب نے سن لیا اور اب اس نظام کے کندھے پر چیف صاحب کا دستِ شفقت ہے اور 75 سالہ نظام کی آنکھوں میں امید کی کرن چمک رہی ہے۔