پاکستان میں شدت اختیار کرتا آئینی بحران اور جمہوریت کا کردار

image

 پاکستان اس وقت شدید آئینی بحران کی زد میں ہے۔ پاکستان کے تمام بڑے آئینی و جمہوری ادارے اس وقت گو مگو کی کیفیت میں ہیں۔ عدلیہ سے لے کر الیکشن کمیشن تک ہر ادارہ اپنی ساکھ کی بقا۶ کی جنگ لڑ رہا ہے۔ پاکستان کا موجودہ نافذالعمل آٸین 1973ء کا آئین ہے جس میں اب تک کئی بار ترامیم کی جا چکی ہیں۔ ہمارا جمہوریت پسند طبقہ امید لگائے بیٹھا تھا کہ یہ آئین پاکستان کی بھنور میں پھنسی کشتی کو کنارے لگا دے گا لیکن آٸین بیچارا اپنی عمر کی نصف سنچری مکمل کرتے کرتے اتنا بوڑھا ہو گیا کہ اپنے اندر موجود خامیوں سمیت بے نقاب ہو گیا۔

پچھلے دنوں جہاں گورنر ہاؤسز، الیکشن کمیشن اور صدارتی محل میں اختیارات کے استعمال پر شدید تناٶ نظر آیا، وہیں حال ہی میں ہونے والی ترامیم کی وجہ سے پاکستان کے 2 سپریم ادارے آمنے سامنے آ چکے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان اختیارات کا منبع ہونے پر سرد جنگ جاری ہے۔ ان تنازعات نے آئین کو مزید متنازع بنا دیا ہے۔ یہاں صرف آئین بے آبرُو نہیں ہوا بلکہ آئین میں موجود ادارے بے نقاب ہوئے ہیں بلکہ ادارے ہی نہیں ان میں بیٹھے چہرے ننگے ہوئے ہیں، سیاستدان ایک دوسرے کا نقاب نوچتے نوچتے سب بے آبرُو ہو گئے ہیں۔ بات یہاں رک جاتی تو خیر تھی لیکن بات اسٹیبلشمنٹ کے آنگن تک جا پہنچی ہے، ”یوں تو ہوئے بے نقاب چہرے کیسے کیسے“ مگر جو حال میڈیا کا ہوا وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ 

بات یہاں رُکی نہیں بلکہ جس طرح میں نے پہلے عرض کیا کہ بات پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن سے ہوتی ہوئی عدلیہ تک جا پہنچی، اب ہر ادارہ ننگا ہو گیا ہے لیکن اگر سچ کہوں تو سب با پردہ ہیں، بس بیچاری جمہوریت بے لباس ہوئی ہے۔ لیکن اب بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس بے لباس کو لباس پہنایا جائے، حقیقت سے سب نظریں چرا رہے ہیں کوٸی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہا کہ اس ملک کا اصل مسئلہ 73 کا آٸین نہیں بلکہ جمہوری آٸین ہے۔

جمہوریت اور پاکستان 2 متضاد سمت کے مسافر ہیں، پاکستان میں موجودہ نام نہاد جمہوریت کا کوئی مستقبل نہیں، اس جمہوریت کے ہاتھوں پاکستان پہلے ہی دو لخت ہو چکا ہے اور آج 50 سال بعد پھر اسی دوراہے کے قریب تر ہے، جمہوریت نے پاکستان کو لسانیت پرستی صوبائیت اور جماعت پرستی کے علاوہ کرپشن، عالمی اسٹیبلشمنٹ کی اجارہ داری اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی سمیت کئی تحفے دیے ہیں۔ آج بھی وطنِ عزیز میں امن کی مخدوش صورتحال، کرپشن، اخلاقی تنزلی، پاکستان پر بے تحاشہ قرضوں کا دباؤ اور روز بروز بگڑتی معاشی صورتحال، یہ سب جمہوریت کے ہی ثمرات ہیں۔ یوں بھی اس نام نہاد جمہوری ملک میں آدھے سے زیادہ وقت غیر جمہوری طاقتوں نے حکومت کی ہے، ہم جمہوری تجربے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔

ہمارے دانشور اس حقیقت کو ماننے کیلٸے تیار ہی نہیں کہ اس جمہوریت میں کبھی بھی پاکستان کا مستقبل تابناک نہیں ہو سکتا۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، پاکستان کا مطلب ”لا الہ الا اللہ“ کا نعرہ ہمارے آباؤ اجداد نے لگایا تھا اور آج بھی پاکستان کا مستقبل اسلامی نظام میں پنہاں ہے، ہمارے اجداد نے اللہ تعالی سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہمیں ایک آزاد وطن دے اور ہم وہاں قرآن وسنت کا نظام رائج کریں گے۔ لیکن ہم اللہ سے کیا گیا وعدہ بھول گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آئے روز نت نئی آفت ہمارے دروازے پر دستک دیتی ہے۔

ثانیِ مدینہ کہلانے والی اس ریاست کو جمہوری نظام دینا ایسے ہی ہے جیسے کینسر کے مریض کو بخار کی دوائی دے کر کبوتر کی طرح آنکھ بند کر لی جائے اور یہ امید لگا لی جاٸے کہ آج نہیں تو کل یہ مریض شفایاب ہو جاٸے گا۔ ہمیں آنکھیں کھولنی ہونگی، پاکستانی عوام کی نبض کو سمجھنا ہوگا، جن کی رگوں میں اسلامی نظام کا خون دوڑ رہا ہے۔ اللہ سے کیا گیا ہمارے اجداد کا وعدہ پورا کرنا ہوگا۔ تب جا کہ اللہ کی رضا و خوشنودی اور امن و سلامتی برسنا شروع ہو گی۔ میری اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے صاحب اختیار لوگوں کو یہ بات سمجھ آ جائے اور میرا پیارا وطن اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر لے، پاکستان زندہ باد، پاکستان پاٸندہ باد۔