کیا ہمارے تعلیمی نظام کو اصلاحات کی ضرورت ہے؟

image

پہلی قسط

تعلیم ایک عمل کا نام ہے جس سے انسان شعور کی منازل طے کرتا ہے۔ علم عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معانی کسی شئے کو جاننا اور حقیقت کی گہرائی کا ادراک کرنا ہے۔ انگریزی زبان میں اسے ایجوکیشن کہا جاتا ہے جو لاطینی لفظ ایجوکئیر یا ایڈیوسر سے ماخوذ ہے، اس کا معنی اصل کو نکالنا، تربیت دینا، پرورش کرنا ہے۔ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "تعلیم انسانی معاشرے کے بالغ ارکان کی وہ جدوجہد ہے جس سے وہ آنے والی نسلوں کی نشوونما اور تشکیل زندگی نصب العین کے مطابق کرسکیں۔" ماہرین کے مطابق اگر تعلیم سے 5 نتائج اخذ ہورہے ہیں تو ایسی تعلیم کو معیاری تعلیم کہا جائے گا۔ پہلا یہ کہ مثبت آگاہی، دوسرا نتیجہ شعور، عقل اور مزاج میں ترقی، تیسرا کسی شئے کا درست استعمال، چوتھا تعلیم حاصل کرتے ہوئے آپ کے وژن کا معیار کیا ہے؟ اور پانچوں یہ کہ علم حاصل کرنے کے بعد اس تعلیم سے کیا نتیجہ حاصل کیا گیا ہے؟ اسی طرح عالمی سطح پر دورِ جدید کے ماہرین تعلیم نے ایک الگ زاویے سے علم کو تین نتائج سے متصل کیا اور اسے 3C کا نام دیا ہے۔ پہلا سی "کانفیڈینس" یعنی تعلیم انسان میں اعتماد بڑھاتی ہے، دوسرا "کریٹیویٹی" یعنی علم سے مراد تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہے۔ اور تیسرا سی "کریکٹر" کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس علم نے آپ کے کردار میں کیا نمایاں تبدیلیاں لائی ہیں۔ دونوں فلسفوں کا نقطہ ایک ہی ہے کہ انسان نے تعلیم سے حاصل کیا کیا؟ مثبت روش یا منفی رویہ! 

اپنی بات کو آگے بڑھانے سے قبل یہاں ضروری سمجھتا ہوں کہ دنیا میں چند اہم، بڑے ممالک و مذاہب کے تعلیمی نظام کی تار بھی چھیڑی جائے تاکہ تقابلی جائزے میں آسانی ہو، کیوں کہ آج ہمارے سسٹم کی سطحی سوچ یہ ہوچکی ہے کہ اگر تعلیم کے معاملے میں مذہب کی بات کی جائے تو ایسے شخص کو سخت مزاج یا مذہب پسند سمجھ کر پس پشت ڈالا جاتا ہے۔ اسی لیے اس تحریر میں چند اہم مذاہب کا ذکر کیا جارہا ہے کہ اس ترقی یافتہ قوم اور معاشرے کی حقیقی جڑ ہی اس کے دینی احکامات اور نظریات ہیں۔ یقیناً آپ کے علم میں ہوگا کہ 95 فیصد یہودی دیوار گریہ کے پاس کھڑے ہوکر کیوں روتے ہیں اور کس بات کا عہد کرتے ہیں؟ انہیں ہیکل سلمانی کی عظمت و برکت کا پتا کس تعلیم نے دیا جو انکی زندگی کا مقصد بنایا جاتا ہے؟ ان کے پہلے گریڈ سے انکی مقدس کتاب ہیبریو بائبل کو تعلیم اور کامیابی کا حصہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ وہاں دسویں جماعت کا بچہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں قدم رکھنے سے پہلے اپنی کتاب اور صحیفوں پر وہ ریسرچ کرتے ہیں جو ہمارے ہاں پی ایچ ڈی ہولڈر کیلٸے لازم قرار دی جاتی ہے۔ آج کم و بیش 1440 سال گزرنے کے بعد بھی لندن کی سڑکوں پر نکلے اسرائیلی نوجوان پلے کارڈ اٹھائے دنیا اسلام کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ "خیبر تمہارا آخری موقع تھا" یقیناً 8 سے 12 ملین کی یہودی آبادی میں اور خصوصاً کسی پڑھے لکھے نے ان کو یہ لیکچر نہیں دیا ہوگا کہ یہ اکیسویں صدی ہے تم کس ماضی میں پھنس کر فرسودہ سوچ کو زندہ کررہے ہو؟ بھارت کی ریاست گجرات اور اتراکھنڈ میں ہندو بچوں کے علاوہ باقی مذاہب کے بچوں کیلئے بھگوت گیتا، وید اور رامائن کو لازم قرار دیا گیا کیوں؟ کیوں کہ وہ جدید علوم کے ساتھ ساتھ اپنے مذہبی نظریات اور اسلاف کی زندگیوں کو دنیا تک پہنچانا اپنا اولین مقصد سمجھتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ اپنی ترمیم و تحریف شدہ مذہبی کتب کو دنیا کی ایجادات میں بڑے اضافے کی وجہ بھی قرار دیتے ہیں۔ 

حالانکہ قرآن وہ واحد کتاب ہے جس میں چودہ صدیاں گزرنے کے بعد ایک حرف کی تبدیلی نہ ہوسکی۔ وہ کتاب جس میں کائنات کی ابتداء سے انتہا تک، قطرے سے سمندر تک، تحت سرا سے آسمان کی بلندیوں تک، روشنی کی شروعات سے اختتام تک،  انسانی وجود کے بننے سے قبر اور حشر تک، علم فلکیات، علم منطق، علم طبعیات، علم کیمیاء، اعلیٰ اخلاق، حسن کردار، رشتوں کے حقوق اور پاسداری تک غرضیکہ انسانی دنیا میں جو کچھ ہوچکا اور جو کچھ ہونے والا ہے سب کچھ سمو کر رکھ دیا گیا لیکن ہمارے تعلیمی نظام نے سب سے بڑی بددیانتی کا مظاہرہ یہ کیا کہ اس کتاب کو محراب و ممبر تک مقید کردیا اور اس میں پوشیدہ رازوں کو آہستہ آہستہ قوم سے دور کرتے رہے۔

ہمارے نظریے کو تقویت بخشی گئی نہ ہی ہمارے ان ہیروز کو ہمارے نصاب کا حصہ بنایا گیا وہ ہیروز جنہوں نے دنیا کی ایجادات میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ ان لوگوں نے کس چیز کو اپنی تحقیق کا حصہ بنا کر دنیا کو نہ صرف حیران کیا بلکہ دور جدید کی ایجادات کی وجہ بنے؟ بےشک انہوں نے قرآن کو اپنا استاد بنایا اور تحقیقی سفر طے کیا۔ آج کسے پتہ ہے کہ دور حاضر میں ہونے والی بڑی ایجادات میں تحقیقات کس کی ہیں؟ سائنسی علوم میں انقلاب کس کا برپا کیا ہے؟ ابن سینا جنہوں نے ارسطو کے فلسفے کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا، جنہوں نے سائیکالوجی، میٹا فزکس، فلسفہ اور طب پر وہ تحقیقات کیں جو 1750ء تک یورپ کے تعلیمی نصاب کا حصہ رہیں! محمد بن موسیٰ الخورازمی جنہوں نے دنیا کا پہلا مقالہ لکھا جسے آج تک کسی بھی پی ایچ ڈی ہولڈر کیلئے لازم قرار دے دیا گیا۔ الجبراء کے مؤجد جنہوں نے رومن گنتی کو 1 سے 9 تک پوری دنیا میں متعارف کروایا! انہوں نے "منفی" کو حساب کا حصہ بنا کر آسانی پیدا کی اس سے قبل ایک طویل حساب کے بعد منفی کا جواب حاصل کیا جاتا تھا۔ تاریخ کا ایک اور بڑا نام ابو ریحان البیرونی ہیں جن کی عمیق النظر تحقیقی کاوشوں نے دنیا کو...

کالم کا بقیہ حصہ آئندہ قسط میں ملاحظہ فرمائیں۔