موسمیاتی تبدیلی اور بدلتے مزاج_باہمی ربط کیا ہے؟

image

 دی ویووز نیٹ ورک: ماہرین نفسیات کی ایک ٹیم نے چین، امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا میں کیے گئے مختلف سروسز کی رپورٹوں پر کام کیا۔ ان ماہرین کے مطابق درمیانے درجہ حرارت یعنی 22 ڈگری سینٹی گریڈ والے علاقوں میں لوگوں کا رویہ بھی زیادہ معتدل تھا اور ان کے مزاج اور رویوں میں زیادہ استحکام دیکھنے کو ملا۔ اس طرح یہ لوگ نت نٸے تجربات کرنے کے زیادہ شوقین پائے گئے۔ اس رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جیسے جیسے ماحول بدلتا ہے انسان کی شخصیت بدل جاتی ہے، دو انتہاؤں پر موجود درجہ حرارت کے علاقوں یعنی بہت سرد اور بہت گرم ممالک میں لوگوں کے رویوں میں بھی واضح فرق نظر آئے گا۔

زمینی ماحول کا گہرا مطالعہ رکھنے والے سٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مارشل بروک کے مطابق زمین کے بڑھتے درجہ حرارت کا دنیا میں جنگوں اور تنازعات میں اضافے، جرائم کی شرح بڑھنے اور اخلاقیات کا معیار گرنے سے براہ راست تعلق ہے اور مستقبل میں جس قدر یہ تبدیلی تیز ہوگئی اس کے انسانی رویوں پر اثرات بھی اُتنی ہی تیز ی سے آٸیں گے۔ ماہرین کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کے اس پہلو کو اب تک نظرانداز کیا جاتا رہا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا ماضی کے مقابلے میں بہت بدل چکی ہے۔ شہری زندگی نے دیہاتی زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بہت سی چیزیں جو ماضی میں معاشرے کا حصہ تھیں، اب ناپید ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی دماغ براہ راست ماحول کے زیر اثر ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نفسیاتی بیماریوں کی زیادہ شرح اسکا نمایاں نتیجہ ہے ایک طرف گرمی بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف جذبات اور احساسات بھی اسی رفتار سے بڑھ رہے ہیں جذبات میں تیزی اور عجلت کٸی شکلوں میں نظر آنے لگے ہیں۔

امریکہ اور میکسیکو میں طویل عرصے کے دوران ایک طرف درجہ حرارت میں اضافے اور دوسری طرف خودکشیوں کے بعد اعداد و شمار کا ایک ساتھ جائزہ لیا گیا۔ پروفیسر مارشل بروک کا کہنا ہے کہ ۶2050 تک درجہ حرارت میں اضافے کا اگر ماضی اور حال سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خود کشیوں میں اضافے کی شرح بڑھ سکتی ہے۔ محقیقین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ گرم ترین مہینوں میں خودکشیوں کے واقعات زیادہ پیش آتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ان واقعات کے وقوع پذیر ہونے میں بڑی وجہ صرف درجہ حرارت میں اضافہ نہیں بلکہ دیگر عوامل بھی کار فرما ہوتے ہیں مگر اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ گرمی اور جدت کا بھی اس میں کسی نہ کسی حد تک کردار ہے۔

امریکہ کے 50 شہروں کے گزشتہ 48 سال کے دوران درجہ حرارت اور جرائم کے گراف کو بھی اس  مطالعہ میں مد نظر رکھا گیا۔ جہاں پر دو درجے گرمی بڑھنے سے ایک لاکھ  افراد کی آبادی میں 9 اضافی جراٸم دیکھے گئے وہاں 55 مختلف رپورٹس کے مطالعہ کے دوران 80 فیصد کیسز میں تشدد کا تعلق گرمی اور جدت  سے رہا۔ اس طرح اجتماعی یا گروپ تنازعات 11.3 فیصد جبکہ انفرادی تنازعات کا تناسب 2.1 فیصد رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے موسموں میں شدت آنے سے تفریحی سرگرمیاں ماند پڑ جاتی ہیں جس سے بڑے اور بچے دونوں متاثر ہوتے ہیں اور ان میں اشتعال کا عنصر نمایاں ہونے لگتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں سامنے آنے والے مسائل میں ایک خشک سالی بھی ہے، جس میں زرعی شعبے پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ ۶2009 کے ایک مطالعہ میں دیکھا گیا کہ آسٹریلیا میں خشک سالی کے مہینوں میں کسانوں کے رویوں میں مایوسی اور ڈپریشن کا لیول بہت بڑا ہوا تھا۔ اس طرح بیروزگاری کے احساس اور ناامیدی نے ان کو دباؤ میں رکھا۔ ماہرین کے مطابق چونکہ ماحولیاتی تبدیلی سے کسی بھی معاشرے اور ملک کی معیشت کا براہ راست فائدہ اور نقصان وابستہ ہے، اس لیے یہی معاشی بدحالی، نفسیاتی اور ذہنی مسائل کا پیشِ خیمہ بن جاتی ہے۔