پلاسٹک دوبارہ قابل استعمال بنانے سے زہر آلود ہو جاتی ہے: گرین پیس

image

متعدد کمپنیاں پلاسٹک کو دوبارہ قابل استعمال بنانے میں مصروف عمل، کچھ اقسام کی پلاسٹک میں زہریلے کیمیا موجود ہوتے ہیں، دوبارہ استعمال کے قابل بنائے گئی پلاسٹک 3 طریقوں سے زہر آلود ہوتی ہے۔

ایمسٹرڈیم: (ویب ڈیسک) تفصیلات کے مطابق متعدد کمپنیاں پلاسٹک کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے عمل میں مصروف ہیں۔ ان میں سے اکثر کمپنیاں یہ کام ماحول کو بچانے کی غرض سے کر رہی ہیں۔ گرین پیس کی رپورٹ کے مطابق یہ ماحول دوست اقدام انسانی صحت کیلئے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

غیر منافع بخش ادارے گرین پیس کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق کچھ اقسام کی پلاسٹک میں زہریلے کیمیا جیسے کہ بسفینول موجود ہوتے ہیں۔  دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کے عمل کے دوران یہ خطرناک کیمیا اس مواد کا حصہ بن جاتے ہیں جو نئی بوتلیں، کارٹن یا دیگر برتن بنانے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ زہریلا مواد جگر کو نقصان پہنچانے کیساتھ تھائیرائیڈ کی بیماری، بانجھ پن اور کینسر کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ گرین پیس میں پلاسٹک پروجیکٹ کی سربراہ کیٹ میلگیز کا کہنا ہے کہ اس کا بہترین متبادل یہ ہے کہ ایک بار استعمال کیے جانے والے پلاسٹک سے دوری اختیار کی جائے۔ اسکے علاوہ کاغذ، شہد کی مکھیوں کے بنائے موم یا بانس سے بنی اشیاء کی جانب منتقل ہونے کی بھی اشد ضرورت ہے۔

گرین پیس کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دوبارہ استعمال کے قابل بنائے گئی پلاسٹک 3 طریقوں سے زہر آلودگی ہوتی ہے۔ پہلا طریقہ یہ کہ آلودہ ری سائیکل پلاسٹک سے بنایا جانے والا برتن اپنے اندر زہریلا مواد رکھتا ہے۔ دوسرا طریقہ برتنوں میں زہریلے مواد (کیڑے کش ادویات، موٹر آئل وغیرہ) کا رکھا جانا ہے۔ زہر آلودگی کی تیسری صورت پلانٹ پر ری سائیکل کیے جانے والے پلاسٹک کو پگھلائے جانے کے سبب نئے زہریلے مرکبات خارج ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔