کالم! باپ کی رضا میں اللہ کی رضا

image

دی ویوز نیٹورک: باپ ایسا مقدس اور بے لوث رشتہ ہے جو ہر کسی کو بلا تفریق رنگ و نسل و مذہب خدا کی طرف سے انمول تحفے کے طور پر عطا کیا گیا ہے، باپ وہ شخص ہے جو اولاد کی خوشی کی خاطر سب کچھ کر گزرتا ہے، اسے 2 کپڑوں میں بھی زندگی گزارنی پڑے تو گزار سکتا ہے اور اولاد کی ہر خوشی کا خیال کر کے اسے اچھے سے اچھی اور اس کی من پسند چیز لے کے دیتا ہے، چاہے اسے وہ خواہش پوری کرنے کے لیے کسی سے ادھار ہی کیوں نہ لینا پڑے یا اپنی کوئی قیمتی چیز ہی کیوں نہ گروی رکھوانی پڑے۔ یہ ہوتا ہے باپ جو اپنی ساری زندگی اولاد کی خواہشات پوری کرنے میں صرف کر دیتا ہے اور ماتھے پر شکن تک نہیں لاتا۔ باپ اپنے بیٹے اور اسکی ماں کے اخراجات پورے کرنے کیلئے دن بھر محنت و مزدوری کرتا ہے۔ اگر اللہ تعالی نے والدین کے دل میں اُنکی اولاد کیلئے بے پناہ محبت اور ایثار کا جذبہ نہ رکھا ہوتا تو یقیناً بچے کی صحیح معنون میں پرورش و تربیت نہ ہو پاتی، اب اگر یہی بچہ بڑا ہو کر اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں بے یار و مددگار چھوڑ دے، اُن کیساتھ حُسن سلوک سے پیش نہ آئے، انکی گستاخی و بے ادبی کرے تو اس سے زیادہ بے انصافی اور ظلم کیا ہو سکتا ہے؟ دینِ اسلام میں والد کیساتھ حُسن سلوک کی بہت تاکید کی گئی ہے اور اس سے بدسلوکی کرنے سے منع کیا گیا ہے، اولاد پر والد کا حق اتنا بڑا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے حق کے ساتھ والد کا حق بیان فرمایا ہے۔ یعنی مخلوقِ خدا میں حقِ والد کو باقی تمام حقوق پر ترجیح دی ہے، اسی طرح حضور نبی کریمﷺ نے بھی والد کی نافرمانی کرنے اور اُسے اذیت و تکلیف پہنچانے کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے۔

اسی طرح سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ترجمہ! اور آپ کے رب نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، اور والدین کیساتھ حُسن سلوک سے پیش آؤ، اگر اُن میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو اور نہ ہی اُنہیں جھڑکو اور اُن سے احترام کیساتھ بات کرو۔ اور اُن پر رحم کرتے ہوئے انکساری سے ان کے سامنے جھک کر رہو اور ان کے حق میں دعا کیا کرو کہ اے میرے رب! ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے رحمت و شفقت کیساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔ (سورۂ بنی اسرائیل آیت نمبر 22-23)۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو اپنے باپ کو گالی دے، وہ ملعون ہے، جو اپنی ماں کو گالی دے، وہ ملعون ہے اور جو غیر اللہ کے لیے ذبح کرے، وہ بھی ملعون ہے۔ (مسند احمد#7598) اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس کچھ مال ہے اور میری اولاد بھی ہے اور میرا باپ میرا سارا مال لے لینا چاہتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ تو بھی اور تیرا مال بھی تیرے باپ ہی کا ہے ۔ (سُنن ابن ماجه‎#2291)۔ باپ کو اسلام نے جنت کا دروازہ بولا ہے جیسا کہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے:’’ باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، چاہے اس دروازے کو ضائع کر لو اور چاہے محفوظ کر لو۔ (سُنن ابن ماجه‎#3663) خرچ کرنے کے حوالے سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ:  دینے والے کا ہاتھ بلند ہے، تم پہلے اپنی ماں پر خرچ کرو، پھر باپ پر، پھر اپنی بہن پر، پھر جس طرح قریبی بنتے ہیں۔ (مسند احمد # 3522)۔

رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس آدمی کا ناک خاک آلود ہو جائے، ناک خاک آلود ہو جائے، اس کا ناک خاک آلود ہو جائے جس نے اپنے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا لیکن انھوں نے اس کو جنت میں داخل نہ کیا۔ (مسند احمد#8998)۔ والد سے حسن سلوک کی یہ بھی ایک قسم ہے کہ جب وہ فوت ہو جاۓ تب اسکے پیاروں سے بہتر سلوک اور تعلق قائم رکھا جاۓ جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ سب سے بڑا حسن سلوک یہ ہے کہ باپ کے فوت ہو جانے کے بعد انسان اس کے محبت کرنے والوں سے ملاپ رکھے۔ (سنن ابو داؤد#5143)۔ باپ کی بد دعا کی قبولیت کے بارے میں حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”3 دعائیں مقبول ہوتی ہیں، ان میں کوئی شک نہیں ہے: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور بیٹے کے اوپر باپ کی بد دعا“۔ (سنن ترمذی#1905)۔ باپ کے دوستوں کا بھی حق حضور ﷺ نے بتایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”سب سے بہتر سلوک اور سب سے اچھا برتاؤ یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ (سنن ترمذی # 1903)، اسی طرح ایک حدیث میں روایت ہے کہ ایک آدمی جہاد کی اجازت طلب کرنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے پوچھا: ”کیا تمہارے ماں باپ زندہ  ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”ان کی خدمت کی کوشش میں لگے رہو، (سنن ترمذی # 1671)۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ آدمی اپنے باپ کے مال کا راعی ( محافظ ) ہے اور اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا، (صحیح مسلم#4727)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ صحابہ کرام کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! کیا کوئی آدمی اپنے والدین کو گالی دیتا ہے؟ فرمایا: ہاں! انسان کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے ۔جب یہ کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔ (صحیح مسلم#263)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: 3 قسم کے لوگ جنت میں نہیں جائیں گے ( 1 ) ماں باپ کا نافرمان ( 2 ) دیوث ( 3 ) اور عورتوں کے بیچ میں چلنے والا۔ (مستدرك الحاكم#244)۔ باپ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو باپ بنانے کے بارے میں اللہ کے نبی ﷺ کا واضع فرمان مبارک ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے بھی جان بوجھ کر اپنے باپ کے سوا کسی اور کو اپنا باپ بنایا تو اس نے کفر کیا اور جس شخص نے بھی اپنا نسب کسی ایسی قوم سے ملایا جس سے اس کا کوئی ( نسبی ) تعلق نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔ (صحیح بخاری#3508)۔ اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ ایک صحابی نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے وقت پر نماز پڑھنا، پھر پوچھا، اس کے بعد، فرمایا والدین کے ساتھ نیک معاملہ رکھنا۔ پوچھا اس کے بعد، آپ نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے یہ تفصیل بتائی اور اگر میں اور سوالات کرتا تو آپ اور زیادہ بھی بتلاتے لیکن میں نے بطور ادب خاموشی اختیار کی، (صحیح بخاری#527)۔

والدین اگرچہ غیر مسلم بھی ہوں تو اسلام انکے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیتا ہے چنانچہ ارشادِ ربانی ہوتا ہے کہ ترجمہ! ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق (اچھے سلوک کی) نصیحت کی ہے۔ اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی 2 برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے والدین کی شکر گزاری کر۔(تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شرک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو، تو ان کا کہنا نہ ماننا۔ ہاں دنیا میں ان کے ساتھ (حُسن سلوک سے پیش آنا) زندگی اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو۔ تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے۔ تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کروں گا۔ (سورۂ لقمان آیت نمبر 13-14)۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: رب تبارک و تعالی کی رضا مندی والد کی رضا مندی میں ہے اور رب تبارک وتعالی کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔ (صحیح الترغیب والترھیب للالبانی 2503)۔ لہذا ہمیں چاہیئے کہ ہم اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ کا حکم سمجھتے ہوئے اپنے والد کی خدمت کرنے کو اپنا دینی و اخلاقی فریضہ سمجھیں۔ اس سے ادب و احترام سے پیش آئیں، اس پر اپنا مال خرچ کریں اور اسکی رضا و خوشنودی میں اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی کو تلاش کریں۔۔۔