مقصدِ حیات

image

 انسان کون ھے؟ انسان کہاں سے آیا ھے؟ انسان اِس فانی دُنیا میں کیوں آیا ھے، یعنی انسان کا مقصدِ حیات کیا ھے؟

جانئے اِن سوالات کے حقیقی جوابات۔

دی ویووز نیٹ ورک: آج تک ہم دوسری چیزوں کے پیچھے بھاگتے رہے، آج تک کبھی ہم نے یہ نہیں سوچا کہ اللہُ پاک نے ہمارے اندر کتنی طاقت رکھی تھی۔ اگر آج ہم تھوڑا سا بھی غور کرکے اپنے اندر کی طاقت کو جان لیں تو ہم کبھی بھی کسی کے سامنے نہیں جھکیں گے، صرف رب سے مانگیں گے، کیا خوب فرمان ہے کہ

"اے غافل انسان، اپنی خودی پہچان"

کیونکہ آج تک ہم نے کبھی بھی اپنا خیال نہیں رکھا، جی ہاں کبھی بھی نہیں۔

(جاری ہے) 

یعنی آج تک جس جسم کا ہم خیال رکھ رہے ہیں/تھے یہ ہمارا اصل وجود ھے ہی نہیں، ہاں جی، حقیقت والی زندگی میں ہم ابھی تک شاید داخل ہی نہیں ہوئے۔ آج تک ہم یہ ہی سمجھتے رہے کہ ہمارے اِس مٹی سے بنے جسم ہی نے اللہُ پاک کو اپنا حساب دینا ھے، یعنی قبر کے تین سوالات کے جوابات دینے ہیں، جبکہ صرف اِس مٹی کے جسم سے سزا و جزا دینے کے لئے حساب کتاب نہیں ہونا۔

تو پھر کون ہیں ہم، کون ہوں میں، ہم ہیں انسان لیکن کیا ہمارا مٹی کا جسم انسان ھے؟

نہیں! جی ہاں یہ جسم انسان کا صرف ایک ظاہری پہلو یعنی ظاہری حصہ ہے۔ یہ ظاہری اور مٹی والا جسم تو ایک نطفے کی پیداوار ھے، یعنی ایک گندہ قطرہ، وہ قطرہ کہ جو ہمارے کپڑوں پہ لگ جائے تو ہم ناپاک ھو جاتے ہیں۔۔۔ جبکہ اللہُ پاک نے تو انسان کے بارے میں سورہ والتین کے اندر 6 قسمیں کھا کر فرمایا کہ "میں نے انسان کو نہایت احسن صورت پر پیدا فرمایا" اللہُ پاک نے انسان کے لئے 6 قسمیں کیوں اُٹھائیں، کیا یہ 6 قسمیں ہمارے اِس ظاہری یعنی مٹی والے جسم کے لئے اُٹھائی گئیں؟ نہیں! جی بالکل بھی نہیں۔۔۔

آج تک ہم نے صرف اپنے اِس ظاہری جسم کی ضرورتوں کو ہی پورا کِیا، جبکہ یہ فنا ھو جانا ھے۔ آج تک ہم اِسی کو انسان سمجھتے رہے، اِس کے لئے کھانے، پینے، اُٹھنے، بیٹھنے، پڑھنے، اور علاج کرنے جیسی ہر چیز کا انتظام و اہتمام کِیا.۔ جس حقیقی انسان کے بارے میں اللہُ پاک نے قسمیں اُٹھائی ہیں، کیا اُس کے بارے میں کبھی ہم نے سوچا کہ اُس کی کیا ضروریات ہیں، کبھی سوچا کہ جس نے اللہُ پاک کی بارگاہ میں جوابدہ ہونا ہے، جس نے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے، کبھی اُس اصل انسان کے بارے میں ہم نے جاننے کی کوشش کی؟ اگر ہم نے آج تک یہ نہیں جاننے کی کوشش کی کہ اصل انسان کون ھے تو ہمیں یہ کیسے پتہ چلے گا کہ اُس کی کیا ضروریات ہیں کہ جِن کو پورا کرکے ہم نے نہ صرف اِس دُنیا کی فانی زندگی میں کامیاب ہونا تھا بلکہ اصلی، ازلی اور حقیقی زندگی کو پا کر آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی میں بھی کامیابی سے رہنا تھا۔

اُسی انسان ہی کو تو ایک مقصد دے کر اِس فانی دُنیا میں بھیجا گیا تھا، یہ ہی وہ انسان تھا کہ جس کو اللہُ پاک نے 4000 سال تک اپنے سامنے بِٹھا کے اپنا دیدار و عبادت کروائی، اُسی انسان ہی کو تو اِس مٹی کے جسم میں ایک خاص مدت تک رہنے کے لئے داخل کیا گیا، یہ مٹی کا جسم تو اُس حقیقی اِنسان کا صرف ایک لباس ھے، افسوس کہ آج تک ہم اُس لباس کی ہر ضرورت کو تو سمجھ گئے لیکن اُس لباس میں موجود اصل انسان کو اُس کے مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے اُسکی ضرورتوں کو پورا کرنا نہ سمجھ سکے، افسوس کہ اب تو شاید نزع کا وقت بھی قریب آ پہنچا ہو۔

موت ہمارے سر پہ منڈلا رہی ہو، کاش کہ ہم اصل انسان کو پہچان جاتے، اُس کے لئے جیتے اور اُس کو اللہُ پاک کی طرف سے دیا گیا مقصد پورا کرواتے، وہ مقصد کہ جو ہمیں عالمِ ارواح یعنی عالمِ لاھوت میں اللہُ پاک کی طرف سے عطا کیا گیا تھا، وہاں ہی ہم نے اُس مقصد کو حاصل کرنے کا وعدہ کر لیا تھا کہ ہمیں جب اِس فانی دُنیا میں باری باری بھیجا جائے گا تو ہم اپنے اُس مقصد کو حاصل کرکے ہی واپس اللہُ پاک کے حضور پیش کیے جائیں گے۔

تب ہی تو جب سے یہ دُنیا بنی ھے تب سے اللہُ پاک اُس مقصد کو یاد کروانے کے لئے اپنے خاصُ الخاص بندے یعنی انبیاء و اولیائے کرام علیہم السلام کو وقفے وقفے سے اِس فانی دُنیا میں بھیجتا رہا ہے، اور ہمیں وہ مقصد یاد کروانے اور اُسے پورا کروانے کے لئے اُن پاک بندوں کو قیامت تک بھیجتا رہے گا، جب تک ایک بندہ بھی اللہُ پاک کا نام لینے والا نہ رہے گا تب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔۔۔

کبھی غور کِیا ھے کہ کیوں چاند، سورج ستارے، وقت، نماز، اور سو کر اُٹھنے کا عمل روزانہ دوہرایا جا رہا ھے اور قیامت تک دوہرایا جاتا رہے گا؟ کیوں کہ ہمیں اللہُ پاک بار بار موقع عطا فرما رہا ھے کہ رب تعالیٰ سے کِیا ہُوا وہ وعدہ پورا کرنے یعنی اپنے اُس مقصد کو پورا کرنے کے لئے تھوڑی سی بھی کوشش اگر کوئی بندہ کرے گا تو رب تعالیٰ فوراً اُس کو اُس کے مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے اُسکی مدد فرمائے گا، تاکہ اُسے زندگی کا اصل فلسفہ سمجھا سکے، اور وہ سکون والی زندگی گزار سکے، تب ہی تو اللہُ پاک نے یہ فرما رکھا ھے "کہ اے بندے تُو ایک قدم چل میں دس قدم چلوں گا" کہ اُس مقصد کو پورا کرنے کے لئے اگر تُو تھوڑی سی بھی کوشش کرے گا تو تیرے لئے راستہ آسان کر دُوں گا۔

بس وہی مقصد پورا کرنا تھا ہمیں، ہمیں سے مراد اُس اصل انسان نے، اور وہ اصل انسان کون ہے؟ 

وہ رُوح ھے۔

مقصد بھی ذیادہ نہیں ہیں صرف ایک ہی ھے، اور وہ مقصد ھے معرفتِ الٰہی حاصل کرنا۔ معرفت یعنی پہچان کرنا، پہچان تو اُسی کی ہی کی جاتی ھے جِسے پہلے کہِیں دیکھا ہُوا ھو، جسے ہم نے پہلے کہیں دیکھا اور ملاقات ہی نہ کی ھو اُس کو ہم دوسری بار ملنے یا دیکھنے پر یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ میں نے تمہیں پہچان لِیا۔

اب سوال یہ ہے کہ پہچان کرنی کِس کی ھے؟

اللہُ پاک کی۔

 کیونکہ اللہُ پاک نے تمام ارواح کو عالمِ ارواح میں 4000 سال تک اپنا دیدار و عبادت کروائی۔

اس بات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسان یعنی روح کو پتہ ہے کہ اللہُ پاک کون ہے اور کہاں ھے، اور کیسے ملے گا، کہاں رہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ جب روح یعنی اصل انسان اپنے رب کو اِس فانی دُنیا کی فانی زندگی میں اپنی (روح کی) آنکھ سے دیکھ لیتی ہے تو وہ پہچان جاتی ھے، اور پھر اپنی زبانِ دل سے کہتی ھے "اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ"، "اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ"، اور پھر اللہُ پاک اُس روح کو اِسی فانی دُنیا میں ہی اپنے محبوب پاکﷺ اور ہمارے آقا پاکﷺ کی کچہری عطا فرما دیتا ھے، جب وہ روح دِل کی آنکھ سے آقا پاکﷺ کی زیارت سے بہرہ ور ہو جاتی ھے تو دِل کی زبان جھومتے ہوئے کہہ اُٹھتی ھے " واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ"، "واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ".

یعنی تب انسان مومن اور مشاہدات کے بعد پہچان کر لینے پر عارف بن جاتا ھے۔

عارف کے لفظی معنی ہیں "پہچان کر لینے والا"، وہ انسان اللہُ پاک کی معرفت یعنی پہچان حاصل کر لیتا ھے۔ یہی اِس فانی دُنیا میں آنے کا اور انسان کا اصل مقصدِ حیات تھا، ھے اور رہے گا۔۔۔ لیکن افسوس کہ انسان اپنے مقصد کو بھول بیٹھا۔ جنت تو انعام ھے، اور ہم اسے حاصل کرنا مقصدِ حیات سمجھ بیٹھے۔ دنیا تو ہماری صرف ضرورت تھی اور ہم اِسے مقصدِ حیات سمجھ بیٹھے۔

مقصدِ حیات تو صرف ایک ہی ھے، یعنی معرفتِ الٰہی حاصل کر کے اللہُ پاک کی مرضی سے آخری سانس تک حضور آقا پاکﷺ کی پکی سچی غلامی کرتے ہوئے زندگی گزارنا۔ دوسرا کلمہ شہادت ھے اور شہادت کے معنی ہیں "گواہی دینا"، کب گواہی دیں گے ہم؟ کب اس کلمے کو حق سچ کرکے اپنے اوپر لاگو کرکے دکھائیں گے ہم؟ کبھی سُنا ھے کہ کسی جج نے اندھے کی گواہی قبول کی ھو؟ تو پھر بغیر دیکھے ہم کیسے گواہی دینے کا دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم قبر میں تیسرے سوال کا جواب آسانی سے دے دیں گے؟ آخر کب ہم اپنی آنکھوں سے غفلت کے پردے ہٹائیں گے؟ کیا اللہُ پاک نے قرآن پاک میں یہ نہیں فرمایا؟ کہ "ہم نے لوگوں کو دل دئیے لیکن وہ اِس کی حقیقت سے بے خبر ہیں، ہم نے اِنہیں آنکھیں دِیں لیکن وہ اِن سے دیکھتے نہیں، ہم نے اِنہیں کان دئیے لیکن وہ اُن سے سُنتے نہیں، ایسے لوگ جانوروں کی مِثل ہیں، بلکہ اُن سے بھی بدتر ہیں، اور وہی لوگ غافل ہیں۔"

(پارہ نمبر 9، آیت نمبر 178، سورۃ الاعراف)

اور کیا آپ نے وہ دو احادیثِ قدسیہ نہیں سُن رکِھیں؟ کہ

 "1- کُنت کنزا مخفی فاردت ان اُعرف فلقت الخلق لاعرف

ترجمہ: میں اِک چُھپا ہُوا خزانہ تھا، میری چاہت بنی کہ میں پہچانا جاؤں، پس میں نے مخلوق کو پیدا کیا تاکہ میری پہچان ھو۔

آج پُوچھیے خود سے کہ کیا اللہُ پاک کی وہ اِک چاہت ہم نے پوری کر لی؟ وہ اِک چاہت کہ جس کو پُورا کرنے کے لئے ہم سے عہد یعنی وعدہ لیا گیا، کیا ہم نے ابھی تک اُس اِک چاہت کو پُورا کرنے کا وعدہ وفا کر لیا؟

اِسی اِک چاہت کو پُورا کرنے کے لئے اللہُ پاک نے ایک اور حدیث قدسی میں فرمایا کہ

 "2- اے ابنِ آدم اک تیری چاہت ھے اور اِک میری چاہت ھے، ھو گا وہی جو میری چاہت ھے، اگر تُو نے فرمانبرداری کی اُس کی جو میری چاہت ھے تو میں تُجھے وہ بھی دُوں گا جو تیری چاہت ھے، لیکن اگر تُو نے نافرمانی کی اُس کی کہ جو میری چاہت ھے تو میں تُجھے تھکا دُوں گا اس میں کہ جس میں تیری چاہت ھے، پھر ھو گا وہی جو میری چاہت ھے."

شہادت گاہِ اُلفت میں قدم رکھنا

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا