ساہیوال ضلع سرگودھا
سرگودھا کی تحصیل ساہیوال، سرگودھا شہر سے 3 کلومیڑ کے فاصلے پر، جھنگ سرگودھا روڈ پر دریائے جہلم کے مشرقی کنارے شیر شاہ سوری کے دور سے آباد چلا آ رہا ہے۔
ساہیوال: ساہیوال، ضلع سرگودھا کا ایک قدیم قصبہ ہے جو سرگودھا شہر سے 3کلومیڑ کے فاصلے پر، جھنگ سرگودھا روڈ پر دریائے جہلم کے مشرقی کنارے پر آباد ہے۔ ساہیوال شیر شاہ سوری کے دور سے آباد ہوا تھا۔ سرگودھا کی تحصیل ساہیوال کا شمار ماضی کے معروف شہروں میں ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی مرکزی شاہراہ سے جڑنے کے باوجود بھی بہت کم لوگ اس کے بارے جانتے ہیں۔ عام روایت ہے کہ ساہو اور لکھی دو بھائی تھے، جن کے نام سے ساہیوال اور اس سے متصل قصبہ لکھیوال شریف بسائے گئے، آج کل لکھیوال ساہیوال کی یونین کونسل ہے۔
ساہیوال کی آبادی اس وقت سے بھی پہلے کی ہے لیکن ایک منظم شہر جو ایک بلند فصیل کے اندر بسایا گیا اس کا دور شیر شاہ سوری کا ہے۔ یاد رہے خوشاب، بھیرہ اور ساہیوال کی تعمیر ایک جیسی ہے۔ قدیم زمانے میں یہ قصبہ بلکل دریا کے کنارے پر واقع تھا، مگر رفتہ رفتہ دریا نے رخ بدل لیا اس وجہ سے اب یہ دریا سے پانچ کلومیڑ کے فاصلے پر ہے۔ اس کی قدیم عمارات اور طرزِ تعمیر اس کی قدامت کے ثبوت ہیں۔ دیگر پرانے شہروں کی طرح اس قصبے کے اردگرد بھی بیرونی حملہ آوروں سے حفاظت کیلئے فصیل تعمیر کی گئی تھی، اس فصیل سے اندر جانے کیلئے شہر کے گرد 6 دروازے تعمیر کیے گئے تھے جو آج بھی اسی شان وشوکت اور خوبصورتی کے ساتھ موجود ہیں۔
یہ دروازے لاہوری دروازہ، کابلی دروازہ، کشمیری دروازہ، جھمٹی دروازہ، ملتانی دروازہ اور ملتانی کہنہ دروازہ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان تمام دروازوں کو شہر کے اردگرد موجود سرکلر روڈ ملاتی ہے۔ اسے 1949ء میں ٹاﺅن کمیٹی اور 2004ء میں سرگودھا کی تحصیل کا درجہ دیا گیا۔ اس سے قبل یہ میانوالی کا حصہ تھا۔ 1997ء کی مردم شماری میں اس کی آباد 3 لاکھ سے زیادہ تھی۔ انتظامی لحاظ سے تحصیل ساہیوال کو چودہ یونین کونسلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ساہیوال چونکہ دریا کے کنارے پر آباد ہے اس لئے سیلابی ریلوں سے اکثر یہاں بہت سے نقصانات ہوتے رہتے ہیں، 1992ء کے سیلاب نے ساہیوال شہر سرکلر روڈ کے گرد کی بیشتر بیرونی آبادی سیلاب سے بری طرح مثاثر ہوئی، جس کے نتیجہ میں سرکلر روڈ کی بیرونی رہائشی آبادی ازسرِنو تعمیر کی گئی، اندروں شہر کی پرانی آبادی کو ساہیوال شہر کے چھ تاریخی دروازوں نے محفوظ رکھا۔
یہ علاقہ کھجور کے باغات کی وجہ سے بھی بہت مشہور ہے۔ اس کے اردگرد بہت عمدہ کھجوروں کے باغات موجود ہیں۔ ساہیوال کی حفاظتی دیواریں تو اب نہیں رہیں۔ پرانے شہر کے گرد سرکلر روڈ نے اس کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ البتہ فصیل کے اندر تقریباً دو مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط اندرون شہر کی گلیاں، محلے، جھروکے، درودیوار، قدیم حویلیاں، بازار آپ کو آج بھی ماضی کی داستانیں سناتے ہیں۔ وہی طرزِ تعمیر جو آپ کو اندرون لاہور، ملتان، خوشاب، چنیوٹ، پشاور جیسے شہروں میں ملے گا۔ اس تاریخی اہمیت کے حامل شہر میں شیر شاہ سوری دور کی ایک قدیم مسجد بھی موجود ہے جس کی تقریباً تین فٹ موٹی دیواریں آج بھی اس کے مضبوط طرزِ تعمیر کی گواہی دیتی ہیں۔ تین ہندو مندر، ایک گوردوارہ بھی یہاں سیاح دیکھ سکتے ہیں۔
ساہیوال کا علاقہ نہنگ تاریخی حوالوں سے بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہاں ہزاروں سال پرانے شہر کے کھنڈرات اور باقیات و آثار جگہ جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسی نہنگ میں ٹبہ پنج پیر واقع ہے، یہ جگہ ایک بزرگ حیات المیر سے منسوب ہے اور روایات کے مطابق اس جگہ انہوں نے عبادت کی تھی۔ اسی نسبت سے یہ جگہ حیات المیر کی بیٹھک کہلائی، ٹبہ پنج پیر پر بنی بزرگ حیات المیر کی بیٹھک لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے، ہر سال 15 اور 16 جنوری کو یہاں عرس منایا جاتا ہے جس میں زائرین بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ صدیوں پرانے کھنڈرات، ٹبے، ٹیلے، بھڑ و دیگر آثارات قدیمہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ خطہ بار بار آباد ہوا اور تباہ ہوا تاہم موجودہ شہر ساہیوال تقریباً 570 سال پہلے آباد ہوا تھا۔ تاہم محکمہ آثار قدیمہ، متروکہ وقف املاک اور حکومتی عدم دلچسپی و نااہلی کی وجہ سے شہر کی کئی تا ریخی نشانیاں ختم ہورہی ہیں، المیہ یہ ہے کہ عوام بھی ان قدیم تاریخی مقامات کی اہمیت سے آگاہ نہیں اور ان کی بربادی میں عوام کامرکزی ہاتھ ہے۔