نارووال

image

دی ویووز نیٹ ورک: پنجاب کے شمال مشرق میں واقع شہر نارووال، سکھ مذہب کی مقدس جگہ کرتار پور بھی اسی ضلع میں واقع ہے، نارووال سے پاکستان کا معیاری وقت شروع ہوتا ہے۔ ضلع نارووال میں سورج کی پہلی کرنیں سرِزمین پاکستان کو چومتی ہیں۔ نارووال سے پاکستان کا معیاری وقت شروع ہوتا ہے، نارووال پنجاب کے شمال مشرق میں واقعہ ایک شہر ہے، دریائے راوی کے کنارے واقع اور پاک بھارت سرحد سے ساڑھے 4 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کا رقبہ 2337 مربع کلومیٹر ہے، نارووال کے جنوب مشرق میں دریائے راوی کے ساتھ بھارت کے اضلاع امرتسر اور گورداس پور جبکہ شمال مغرب میں پاکستان کا ضلع سیالکوٹ اور جنوب کی جانب ضلع شیخوپورہ اور گوجرانوالہ واقع ہیں۔ یہاں سب سے مشہور روحانی ہستی پیر جماعت علی شاہ اور بہت سی قابلِ عزت ہستیوں کے مزار ہیں، اس کے علاوہ یہاں سکھ مذہب کی مقدس جگہ کرتار پور واقع ہے جو نارووال سے 12 کلومیٹر شکرگڑھ روڈ پر واقع ہے۔ تاریخی پس منظر دیکھا جاۓ تو ہندوستان میں افغان بادشاہوں کے عہدِ سلطنت کے وقت ریاست راہ وری بشمول ریاست جموں کشمیر کولو نامی راجا کے زیرِتسلط تھی جو راجپوت نسل کے سورج ہنسی خاندان سے تعلق رکھتا تھا، یہ علاقہ جہاں اب نارووال شہر آباد ہے کولو کی سلطنت میں تھا، کولو کے 3 بیٹے تھے جن کے نام پارو، تارو اور نارو تھے اور نارو سب سے چھوٹا تھا، ریاست راجوری راجہ کے 3 بیٹوں میں تقسیم ہوئی تو چونڈا، جوڑا سید ورانگلہ (نزد گورداسپور یہ علاقہ جہاں اب نارووال شہر آباد ہے) نارو کے حصے میں آئے۔

نارو سنگھ  نے اپنی ریاست کے صدر مقام کیلئے اپنے ساتھیوں کے مشورے سے یہی جگہ منتخب کی، مشہور ہے کہ ابتدائی دور میں نارو سنگھ نے متعدد مقامات پر شہر آباد کرنے کی کوشش کی مگر ناکام ہوا۔ محققین کہ مطابق اس دور میں نارو سنگھ کو اس وقت کے بزرگ پیشواؤں نے ایک زائچہ بنا کر بتایا کہ اس وقت تک یہاں شہر آباد نہیں ہو سکے گا جب تک سادات خاندان کا کوئی بزرگ اس کی بنیاد نہ رکھے گا۔ اسی دوران نارو سنگھ کی ملاقات لوہار کلاں علاقے کے رئیس سے ہوئی جس نے اُسے لوہار کلاں کے سادات خاندان کے بارے میں بتایا اور وہاں حاضر ہونے کا مشورہ دیا، چنانچہ نارو سنگھ اُس کے کہنے پر لوہار کلاں گیا اور پیر سید عنایت اللہ شاہ اور پیر سید شمس الدین رحمۃ اللّٰہ علیہم اجمعین سے ملاقات کرتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا۔ کہتے ہیں کہ پیر سید عنایت اللہ شاہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے فرزند ارجمند پیر سید حبیب اللہ شاہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے نام ایک چھٹی لکھ کر نارو سنگھ کو دے دی اور کہا کہ میرا بیٹا تمہارے ساتھ جائے گا اور وہاں شہر ضرور آباد ہو گا۔ نارو سنگھ طویل مسافت کے بعد جب ملتان پہنچا تو معلوم ہوا پیر سید حبیب اللہ شاہ رحمۃ اللّٰہ علیہ واپس جا چکے ہیں۔

محققین کے مطابق ملتان میں چند روز قیام کے دوران اسے خواب میں شمس الدین رحمۃ اللّٰہ علیہ ملے اور فرمایا کہ جا ہم نے اپنا فرزند حبیب اللہ شاہ رحمۃ اللّٰہ علیہ تمہیں عطا کر دیا، ان کی عزت اور خدمت کرو اور درگاہ کے سجادہ نشین پیر سید حسن کبیر الدین رحمۃ اللّٰہ علیہ سے بھی سید حبیب اللہ شاہ رحمۃ اللہ علیہ کو کہلوا لو، انشاء اللہ کامیابی ملے گی۔ اگلے روز نارو سنگھ سید حسن کبیر الدین کے پاس گئے اور سارا واقعہ بیان کیا جس پر انہوں نے بھی الگ چٹھی بنام سید حبیب اللہ شاہ رحمۃ اللّٰہ علیہ تحریر کی، نارو سنگھ دریائے بیاس کے کنارے کنارے سفر کے مراحل طے کرتے ہوئے براستہ دیپالپور  کسوگھاٹی پرگنہ منصود پہنچا تو وہاں ان کی ملاقات پیر حبیب اللہ شاہ رحمۃ اللّٰہ علیہ سے ہوئی اور دونوں چٹھیاں ان کی خدمت میں پیش کیں جس پر انہوں نے فرمایا کہ یہ سب مجھے پہلے معلوم ہو چکا تھا اور میں تمہارے ساتھ چلوں گا۔ آپ نے شہر آباد کرنے کی غرض سے وہاں سے اپنے عقیدت مندوں میں سے 12 قبائل کو اپنے ہمراہ چلنے کو کہا، 12 قبیلوں کے لوگوں کو ساتھ لیکر لوہار کلاں اپنے والد گرامی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر موسم گرما کی ایک صبح پیر سید عنایت اللہ شاہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے فرزند جلیل پیر سید حبیب اللہ شاہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ آئے اور لوگوں کو رئیس نارو سنگھ کے ساتھ رخصت کیا، موجودہ کچہری روڈ پر پیر سید حبیب اللہ شاہ سبزواری نے اپنے قافلے کے ہمراہ قیام کیا جہاں اب ان کا مزار بھی ہے۔

1928ء انگریز کے دورِ حکومت میں نارووال کو تحصیل کا درجہ دیا گیا اور آزادی کے بعد جولائی 1990ء میں نارووال کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ اس علاقے کا چاول بہت مشہور ہے جو بیرونی ممالک میں بھی بھیجا جاتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر ضلع نارووال ایک تجارتی مرکز بن چکا ہے۔ یہاں کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے روای اور نالہ ڈیک اپنی مثال آپ ہیں۔ صحت و تعلیم کی بہتر سہولیات میسر ہیں، یہاں کافی اچھے تعلیمی ادارے بھی موجود ہیں، اس کی 3 تحصیلیں ہیں، نارووال شکرگڑھ اور ظفروال، اس کے بڑے قصبوں میں بارہ منگا، کنجرور، عیسیٰ، کرتار پور اور لنگاہ بھٹیاں شامل ہیں۔ یہاں پر باجوہ، نارو، سنگیال ملک، گجر، مہیس، تاجوکے گجر، لنگاہ، انصاری، سادات، مہر ارائیں، جرپا، میو، موچی، جٹ، راجپوت، ککے زئی، سلہریا، اعوان، چیمہ، مغل اور بوبک وغیرہ آباد ہیں۔ ابرار الحق، امام الدین شہباز، ایس ایم ظفر، برکت اللہ (آرچ ڈیکن)، خواجہ عبد السلام چشتی، دانیال عزیز، دیس راج، دیو آنند، ذیشان افضل، راجندر ناتھ رہبر، صادق حسین شاہ، عدنان الیاس اور چوھدری عبدالرحیم ضلع نارووال کی معروف شخصیات ہیں۔

پائلٹ آفیسر راشد منہاس  نشانِ حیدر کے آباؤ اجداد کا تعلق بھی نارووال سے تھا اور سوار محمد حسین شہید نشانِ حیدر نے ظفروال شکرگڑھ کے محاذ پر اپنے فرائض سر انجام دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا اور ملکی دفاع کیلئے ایک انمٹ داستان رقم کی۔ اس سر زمین سے تعلق رکھنے والے امیرِ ملت پیر جماعت علی شاہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے تحریکِ پاکستان میں اہم کردار ادا کیا اور وہ قائدِ اعظم رحمۃ اللّٰہ علیہ کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو امیرِ ملت سے گہری عقیدت تھی۔ ایک بار امیرِ ملت رحمۃ اللّٰہ علیہ کی صدارت میں انجمن حمایتِ اسلام کا جلسہ ہو رہا تھا، جلسہ گاہ میں بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی، علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ ذرا دیر سے آئے اور امیرِ ملت کے قدموں میں بیٹھ کر کہا اولیاء اللہ کے قدموں میں جگہ پانا بڑے فخر کی بات ہے، یہ سن کر امیرِ ملت رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا ”جس کے قدموں میں اقبال آ جائے اس کے فخر کا کیا کہنا۔" فیض احمد فیض اردو کے ایک عظیم شاعر تھے اور وہ کالا قادر ضلع نارووال میں پیدا ہوئے۔