بے نیازیاں

image

       دی ویووز نیٹ ورک: یوں تو "الصمد" یعنی بے نیاز صفتِ ربوبیت ہے مگر دورِ حاضر میں انسانی فطرت میں یہ وصف کافی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ہم شرم و حیاء، تربیت و پرورش، تعلیم و تلقین سے مکمل طور پر بے نیاز ہو کر خود اور اپنی نسلوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا چکے ہیں۔ والدین بالخصوص والدہ جو بچے کی پہلی درسگاہ ہے، وہ بھی اب اپنی ذمہ داریاں پسِ پشت ڈال کر اولاد کو زمانے کے رحم و کرم پر چھوڑ چکی ہے، بچے جو اپنے بزرگوں کے پاس بیٹھ کر ان سے تربیت حاصل کرتے تھے، وہ بھی اب اتنے بے نیاز ہو گئے ہیں کہ جیسے ان کو اب کسی ترتیب یا نصیحت کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ تعلیم کے میدان میں آئیں تو اساتذہ اور تعلیمی اداروں کی بے نیازی دیکھنے کو ملے گی، ایک وہ استاد تھے جو اپنے شاگردوں پر اپنے بچوں سے بڑھ کر توجہ دیتے اور ان کو یہ احساس دلاتے کہ تعلیم سے فرار ان کا اپنا نقصان ہے۔ اب ماحول یہ ہے کہ آئے روز بچوں اور ٹیچرز کے درمیان نجس محبت یا جنسی زیادتیوں کے افسانے سننے کو ملتے ہیں، گویا کہ انسان نے خود اپنی بربادی کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے۔

ڈاکٹروں کے پاس مریضوں کی قطاریں اور ڈاکٹروں کی کمائیاں بھی ہمارا اپنا ہی قصور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو شعور کی دولت سے مالا مال کیا ہے تو اس کا استعمال کرتے ہوئے اگر ہم اپنے طعام اور رہن سہن کے معاملات میں توازن لے آئیں تو شاید کبھی ڈاکٹر کے پاس نہ جانا پڑے۔ متوازن خوراک سے بچوں کی پرورش احسن طریقے سے ہوتی ہے جس سے ان کی زندگی میں برکت ڈال دی جاتی ہے۔ آج ہم سال کے 365 دنوں میں سے تقریباً 200 دن تو بازاری کھانا کھاتے ہیں جو کہ انتہائی ناقص اور مضرِ صحت ہوتا ہے، آئے روز آپ میڈیا پر ہوٹلوں سے ناقص گوشت پکڑنے کی خبریں ملاحظہ فرماتے ہیں جو کہ ہماری ضرورت سے زیادہ گوشت خوری کا نتیجہ ہے۔ اگر کھانے میں توازن لایا جائے تو دالوں میں بھی پروٹین وغیرہ کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں، اس طرح جسم کی ضرورت بھی پوری ہوگی اور گوشت کے بڑھتے نرخوں پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی، سبزیاں تو انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، مگر ہم نعمتِ خداوندی کی کیوں کر قدر کریں؟

انسانی زندگی میں بنیادی حیثیت رکھنے والی خوراک کے بغیر زندگی کی بقاء کا تصور نا ممکن ہے۔ خوراک کئی اجزاء پر مشتمل ہے، جن میں لحمیات، نشاستہ، چکنائی، نمکیات اور حیاتیات شامل ہیں۔ لحمیات کا کام انسانی جسم کی بڑھوتری اور نشوونما کرنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بچپن اور لڑکپن کے دنوں میں ہمیں لحمیات کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ نشاستہ، لحمیات اور چکنائی کا کام انسانی زندگی کے روزمرہ کاموں کیلئے توانائی مہیا کرنا بھی ہے۔ لحمیات سے بھرپور غذاؤں میں گوشت، مچھلی اور دالیں وغیرہ شامل ہیں، نشاستہ سے بھرپور غذاؤں میں سبزیاں اور پھل شامل ہیں جبکہ چکنائی سے بھرپور خوراک میں تلی ہوئی اشیاء پیزہ اور برگر وغیرہ شامل ہیں۔ نشاستہ، لحمیات اور چکنائی کے مقابلے میں نمکیات اور حیاتیات بہت کم مقدار میں انسانی صحت کیلئے ضروری ہیں۔ نمکیات اور حیاتیات ہمیں کوئی توانائی تو مہیا نہیں کرتی ہیں لیکن ان کی موجودگی ہمارے جسم کے اندر جاری مختلف عوامل کیلئے ضروری ہے اور کمی کی صورت میں ہمارا جسم ان سے منسوب کام سر انجام نہیں دے پاتا۔ 

نمکیات کی مختلف اقسام ہوتی ہیں مثلاً کیلشیم، آئرن، زنک وغیرہ، کیلشیم کی کمی سے ہڈیاں کمزور ہوجاتی ہیں، آئرن کی کمی سے خون بننے کا عمل سست پڑ جاتا ہے جبکہ زنک کی موجودگی 200 سے زائد خامروں کی تیاری کیلئے ضروری ہے۔ حیاتیات کی مختلف قسمیں ہیں مثلاً حیاتین اے، بی، سی، ڈی وغیرہ اور یہ خوراک کے اندر موجود پانی اور چکنائی میں پائے جاتے ہیں۔ حیاتین اے کی کمی سے رات کے وقت نظر نہیں آتا، حیاتین ڈی کی کمی سے ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں جبکہ حیاتین "کے"خون کے جمنے کے عمل کیلئے ضروری ہے۔ جدید ریسرچ کے مطابق حیاتین ڈی کی کمی کو کینسر کے ہونے کا ایک بڑا ذریعہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ قدرت نے ہر ایک شے کو اعتدال میں رکھا ہے، جہاں خوراک کے اجزائے ترکیبی کی کمی ہمارے جسم میں مختلف بیماریوں کا باعث ہے، وہاں ان کا ایک حد مقررہ سے تجاوز بھی ہماری صحت کیلئے نقصان دہ ہے، چکنائی کی زیادتی موٹاپے کا سبب ہے جس کو بیماریوں کی جڑ قرار دیا جاتا ہے، جن میں سرفہرست دل کی بیماریاں ہیں۔

اگر آج بھی ہم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا شروع کریں تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں، ہر کوئی ایک صحت مند زندگی گزار سکتا ہے۔ ورزش کو معمول بنائیں اور خوراک کو دنیا سے ختم کرنے کے نظریے کو ترک کرتے ہوئے ایک متوازن غذا کا استعمال کریں جس سے ہم نہ صرف جانی نقصان بلکہ مالی نقصان سے بھی محفوظ رہیں گے۔ ایک تحقیق کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں 0.034 بلین جبکہ ترقی پذیر ممالک میں 0.8 بلین لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہیں، ترقی پذیر ممالک میں تقریباً 2 بلین لوگ بنیادی غذائی اجزاء کی کمی کا شکار ہیں جن میں آئرن، آیوڈین اور وٹامن اے سرِفہرست ہیں۔ اگر خوراک کا توازن برقرار رکھا جائے تو نہ صرف دنیائے عالم کو غذائی اجزاء کی کمی سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ بھوک سے مرتی مخلوقِ خدا کا پیٹ بھی پالا جا سکتا ہے۔ خدارا عطائے ربانی کی قدر کریں کیونکہ گزرا وقت ہاتھ آنے والا نہیں، صحت مند زندگی آپ اور آپ کے بچوں کیلئے آسانی پیدا کرتی ہے۔