اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
دی ویووز نیٹ ورک: ٹھوس اور مستند حوالہ جات سے ثابت ہوا ہے کہ یہ واقعہ کربلا 2 سیاسی رقیبوں کی جنگ کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ ہی کسی زمین کو حاصل کرنے کے لیے جنگ کی گئی تھی۔ اسی طرح یہ واقعہ 2 مختلف گروہوں کے اختیارات و برتری کے کینہ و حسد کی وجہ سے وجود میں نہیں آیا بلکہ یہ واقعہ درحقیقت 2 فکری اور عقیدتی نظریوں (مکاتب فکر) کی وجہ سے وقوع پذیر ہوا تھا، جس کی بھڑکتی ہوئی آگ پوری تاریخِ انسانیت میں گزشتہ زمانے سے اب تک ٹھنڈی نہیں ہوئی، یہ جنگ تمام انبیاء علیہم السلام اور دنیا میں اصلاح قائم کرنے والوں کی جنگ کو دوام بخشتی ہے لیکن منافقین اسلام نے کسی نہ کسی شکل میں خود کو بچائے رکھا، جب باطل کی بقاء بھی خطرہ سے دوچار تھی۔ ان منافقین نے کمزور ترین لمحات میں اپنے وجود کو روپوش رکھا۔
شہادت حضرت امام حسین علیہ السلام یعنی واقعہ کربلا کے پس پشت سب سے خطرناک عنصر قبائلی اور نسلی تعصب تھا۔ قریش کی باقیات میں ابھی تک قبائلی تعصب اور بدلے کی آگ ان کے دلوں میں موجود تھی جسے شیطان نے ہوا دیکر غضبناک کر دیا تھا۔ مذکورہ تمام باطل قوتیں یکجا ہو چکی تھیں، ان تمام باطل اتحادی قوتوں کو صرف حضرت امام حسین علیہ السلام کی ذات مقدسہ سے خطرہ لاحق تھا۔ شیطان اور اس کے اتحادیوں کی اس سے بڑی فتح کیا ہوگی کہ باطل غلیظ نے امام عالی مقام سے بیعت طلب کرنے کی گستاخی کی، باطل نے حق سے پوری انسانی تاریخ میں اتنی بڑی گستاخی کی جرأت کبھی نہیں کی تھی۔
باطل کی ہمیشہ سے یہ روش چلی آ رہی ہے کہ جب بھی باطل قوت حد سے بڑھ جائے اور اس کے اثر و رسوخ کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگے تو وہ مد مقابل کی حقیقی قوت کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ باطل غرور کا کاری وار اہلِ حق پر کرتا ہے اور کامیابی کی صورت خود بھی مغرور ہو جاتا ہے، اسی تسلسل میں باطل کا سرکردہ یزید پلید بھی مغرور ہو کر بھول گیا تھا کہ اصل میراث محمدﷺ عشق اور فقر ہے۔ یقیناً باطل کا سرکردہ نمائندہ، طاقت اور اثر و رسوخ، جاہ پرستی و اقتدار سے مغرور یزید پلید یہ بھول چکا تھا، وگرنہ یہ حقیقت کون نہیں جانتا تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں امت کو واضح طور پر خبردار کر دیا تھا۔ ارشاد نبویﷺ ہے، (میں 2 گراں قدر چیزیں تم میں چھوڑ رہا ہوں، کتابُ اللہ اور عترتِ اہلِ بیت)، جب تک تم ان سے تعلق رکھو گے، ہرگز گمراہ نہ ہو گے، یہاں تک کہ یہ دونوں میرے پاس حوضِ کوثر پر وارد ہوں گی۔
حقیقتِ امام عالی مقام علیہ السلام خشک ذہن علمائے دین اور نامور پڑھے لکھے، سیکولر، مفکرین کی ذہنی سطح اور فہم سے کوسوں دُور ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے پوری طرح سے کوشش کی کہ مدینہ شریف میں اس قسم کی صورتحال پیدا نہ ہو جس سے اہلِ حق اور اہلِ ایمان کے لٸے کوئی مشکل کھڑی ہو جائے۔ آپ علیہ السلام بخوبی جانتے تھے کہ اہل ایمان اس طرح کے حالات میں ضرور بالضرور متذبزب ہوں گے مگر یزید پلید آپ علیہ السلام کے بہانے اہلِ مدینہ شریف اور مکہ شریف کے عام شہریوں کو بھی ہلاک و برباد کرنے کا ارادہ بنائے ہوئے تھا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کو مدینہ منورہ اور مکہ شریف میں خونریزی بالکل گوارا نہ تھی، اس لئے امامِ عالی مقام علیہ السلام کربلا تشریف لے گئے، اب حق اور باطل کا معرکہ ناگزیر ہو چکا تھا، اقبالؒ فرماتے ہیں کہ 'موسیٰ و فرعون و شبیرؓ و یزید
ایں دو قوت از حیات آمد پدید'
یعنی معرکہ حق و باطل میں تکرار ابدی یہی ہے کہ کبھی موسیٰ کے مقابلے میں فرعون اور حسین کے مقابلے میں یزید۔ آج کے پُرفتن اور کٹھن دور میں ہر شخص پر شک گزرے گا کہ کہیں وہ یزید کا نمائندہ تو نہیں، ہم کیسے یزید پلید سے چھٹکارا حاصل کریں گے؟ یاد رہے کہ مکمل انسان ایک میدان کربلا ہے، انسان کے وجود میں شیطان، نفس، دنیا کی ناجائز محبت اور روح محمدیﷺ موجود ہے، اگر آدمی شیطان، نفس اور دنیا کی ناجائز محبت میں گرفتار ہے تو سمجھ لیں یزید پلید کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے اور جو روحِ محمدیﷺ ہے وہ حسینیت کا کردار ادا کر رہی ہوتی ہے۔ اس لئے جب تک ہمارے دِلوں میں شیطانی اور نفسانی ظلمت موجود ہے، ہماری صفوں میں پلید لوگ موجود رہیں گے اور ہم شہیدِ کربلا کا قرض چکانے سے قاصر رہیں گے، ایسی صورتحال میں ہم بالکل ان لوگوں میں شمار ہو سکتے ہیں جو واقعہ کربلا کے وقت یا تو یزید کے لشکر میں شامل تھے یا بے جا مصلحت پوش ہو کر زبان بندی اختیار کر لی تھی۔
اس پُرفتن دور میں روحِ محمدیﷺ کو بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے جس سے ہمیں کسی قسم کا شک نہیں ہوگا بلکہ ہم حضرت امام حسین علیہ السلام کے نمائندے ہوں گے اور قیامت تک کفر و باطل کا مقابلہ کرتے رہیں گے، حق اور باطل کی بھی پہچان رکھتے ہوں گے۔ دوسری جانب یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ یہ واقعۂ کربلا ایک فلسفہ بھی ہے کیونکہ رہتی دنیا تک جہاں جہاں اور جب بھی ظلم کے پہاڑ ڈھائے جاتے ہیں، اسلام نیچے کی بجائے اُوپر کی جانب بڑھتا ہے یعنی اُبھرتا ہے، جب شہداء کے خون مبارک سے چراغِ فکرِ حقیقی روشن ہُوا تو باطل اپنی موت آپ مر گیا جسے کسی شاعر نے خوب کہا ہے۔
قتلِ حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد