کیا ہمارے تعلیمی نظام کو اصلاحات کی ضرورت ہے؟

image

دی ویووز نیٹ ورک: تاریخ میں ایک اور بڑا نام ابو ریحان البیرونی کا ہے جن کی عمیق النظر تحقیقی کاوشوں نے دنیا کو فزکس، ریاضی اور علم فلکیات سے متعارف کرایا۔ البیرونی پہلے شخص تھے جنہوں نے دنیا کو بتایا کہ زمین ساکن نہیں ہے بلکہ ایک خاص رفتار سے گھومتی ہے۔ انہوں نے ہی روشنی کی رفتار کو ماپ کر آواز کی رفتار سے تیز بتایا۔ آج گوگل اور مختلف ایپس سے کسی خاص مقام تک پہنچنے کیلئے لونگیٹیٹیوڈ اور لیکٹیٹیوڈ یعنی عرض البلد اور طول البلد معلوم کیا جاتا ہے، درحقیقت اس ایجاد کی بنیاد بھی البیرونی ہی نے رکھی تھی۔ جابر بن حیان نے حکمت، منطق اور کیمیاء میں عظیم کارنامے سرانجام دیے، انہوں نے آج سے 1200 سال پہلے قرع انبیق ایجاد کیا جو کسی بھی شے کو کشید کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا اور آج جدید ترین دور میں بھی شوربے کے تیزاب کیلئے قرع انبیق کا استعمال کیا جاتا ہے۔ 

تاریخ کا ایک اور عظیم نام ابن الہیثم ہے جنہوں نے آنکھوں اور روشنی پر اپنی تحقیق کو 237 کتب میں بند کیا جو آج بھی آئی سپیشلسٹ کیلئے مشعل راہ ثابت ہو رہی ہیں۔ دنیا کے پہلے کیمرے کا سہرا بھی ابن الہیثم کے سر جاتا ہے۔ جہاز کی ایجاد پر رائٹ برادران کو تمغہ دیا جا رہا ہے جبکہ عباس ابن فرناس کی پہلی کاوش نے دنیا کو پہلا پیراشوٹ دیا جو دراصل اڑنے کیلئے بنایا گیا تھا اور اسی تجربے کو کاپی کر کے رائٹ برادران نے ہوائی جہاز کیلئے کوشش کی تھی۔ وقت اور الفاظ کی قید صرف چند لوگوں کو ہی شامل گفتگو کر سکی، سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے بچوں کو ان ہیروز کے بارے میں بتایا جا رہا ہے؟ 

اب دوسری جانب آتے ہیں۔ کیا ہمارے بچوں کے علم میں ہے کہ مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت کس معیار کی تھی؟ وہ ہستی جنہیں آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے اسلام کا پہلا سفیر اور معلم بنا کر بھیجا گیا، ان کی اسلام کیلئے کیا قربانیاں تھیں؟ میثاق مدینہ کیا ہے؟ مسجد اقصیٰ سے ہماری نسبت اور ذمہ داریاں کیا ہیں؟ جنگ بدر کیوں ہوئی؟ آج شام کے حالات کا جنگ یرموک سے کیا تعلق ہے؟ طارق بن زیاد کون تھے اور کیسے سپین فتح ہوا؟ وجہ کربلا کیا تھی؟ خلافت راشدہ، خلافت عثمانیہ... تاریخِ اسلام ایمان، قوی اور دلیر واقعات سے بھری پڑی ہے، ہم نے کتنی کوشش کر کے اسے اپنے بچوں تک پہنچانے کی کوشش کی؟ ہاں یہ امید کرتے ہیں کہ سکول، کالج یا یونیورسٹی ہمارے بچوں کو دین حق کا علم دے گی! اپنے آپ سے پوچھئے کہ دور حاضر میں یہ ممکن ہے، جب ہمارے ادارے صرف مغربی افکار کے فروغ میں مصروف عمل ہیں؟ 

افسوس کے ساتھ ہمارے ہاں اکثر تعلیمی ادارے اس دور سے گزر رہے ہیں جہاں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود علم حاصل نہیں ہو رہا! طالب علم میں حبِ تربیت موجود ہے لیکن مفہوم تربیت سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ ہمارے ہاں سکول، کالج یونیورسٹی میں تعلیم دی جا رہی ہے لیکن اس کے نتیجے میں ہمارے اخلاقی اقدار پر کوئی اثر پڑا نہ ہی اس علم سے ایمان میں مضبوطی آئی۔ ہم نے لینگویجز کو اپنا مضمون رکھا لیکن ہمارے لہجوں میں سختی باقی ہے، ہم جس زبان کو سیکھنے کا شوق رکھتے ہیں اس کے اصل باسیوں کی طرح نرم لہجہ ہمارے بس کی بات نہیں۔

ہم سائنس کے سٹوڈنٹس بن جاتے ہیں لیکن اس میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی ماسوائے چند طلبہ کے، مشاہدے سے کوسوں دور ہیں۔ کثیر تعداد میں میتھمیٹکس میں ٹاپ کرنے کے باوجود ہمارے عقل کے دروازے ویسے ہی بند رہتے ہیں! یہ میتھمیٹکس ہمارے اندر تجزیے کی قوت نہیں بڑھا سکا۔ ہم نے تاریخ میں گولڈ میڈل حاصل کر لیا لیکن اپنی تاریخ اور اجداد کی کاوشوں اور قربانیوں کو تقاریر، محافل اور بحث و تکرار تک محدود کر دیا۔ خود کو اس معیار تک لے جانے کی کوشش کی نہ ہی اپنی نسل کو اپنی حقیقی تاریخ سے آشنا کروانے میں کامیاب ہو سکے۔

شعبۂ مالیات یعنی فنانس میں ایک عمل ایکویشن کیا جاتا ہے جو درحقیقت 2 ریاضیاتی ڈیٹا کو آپس میں برابر کرنے کا نام ہے۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ ہماری تعلیم اور علم ایک دوسرے سے ایکویٹ کر رہی ہیں یا نہیں؟ آپ سے ایک اور سوال ہے کہ جو شخص زیادہ پڑھا لکھا ہوگا اسے یقینی طور پر اچھی طرح معلوم ہوگا کہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ہمیں زندگی کیوں ملی ہے؟ مجھے اس دنیا میں کرنا کیا ہے؟ مجھے جانا کہاں ہے؟ میں ہوں کیا؟ میری حقیقت کیا ہے؟ خدا مجھ سے چاہتا کیا ہے؟ اصل کامیابی کیا ہے؟ اگر ان سب سوالوں کے جواب آپ کے پاس ہیں تو ابتداء میں درج 5 نتائج یعنی مثبت آگاہی، شعور، عقل و مزاج میں ترقی، کسی شے کا درست استعمال اور ویژن میں آپ پاس ہیں اور اگر نہیں تو تھوڑا جانچنے کی کوشش کریں کہ خلا کہاں ہے؟ 

آخری بات کہ ہمیں اپنے اور اپنے بچوں کے لئے کن اہم اقدامات کی ضرورت ہے؟ اور اگر ہم ان اقدامات سے واقف ہیں تو اس کیلئے ہم نے کتنی کوشش کی؟ میرے مطابق ہماری جدید ترین تعلیم پر گہری نظر ہو، بچوں میں ریسرچ کی عادت کو پالش کرنا چاہیے تاکہ وہ کسی بھی بات کو تسلیم کرنے سے پہلے یا آگے پھیلانے پر سوال سے پہلے جواب کی سکت رکھتے ہوں۔ بچوں کے رجحانات، شوق اور عزت نفس کا خاص خیال رکھتے ہوئے اپنی تاریخ کو خوبصورت انداز میں ان کے سامنے رکھا جائے تاکہ ان کے اندر کم از کم ان تمام الجھنوں کے جواب ہوں جن سے وہ بہک سکتے ہیں۔ خوش رہیں آباد رہیں۔