قرض کے معاملات اور اسلام

image

 

دی ویووز نیٹ ورک: اگر کوئی شخص ضرورت مند ہے اور قرض کا مطالبہ کر رہا ہو تو ایسے شخص کو قرض دینا احسن عمل ہے، تاکہ وہ اس سے اپنی جائز ضروریات پوری کر سکے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کسی مسلمان کی تکلیف کو دُور کرے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی تکالیف کو دور کرے گا۔ اس حدیث سے پتا چلا کہ قرض دینا بھی ایک بہترین عمل ہے لیکن قرض لینے کے بعد واپس نہ کرنے والے کیلئے سخت وعیدیں بھی ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شہید کا ہر گناہ معاف کر دیا جاتا ہے ، سوائے قرض کے (صحیح مسلم#4883)۔ ایک دوسری جگہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف سے ادا کرے گا اور جو کوئی نہ دینے کیلئے لے تو الله تعالیٰ بھی اس کو تباہ کر دے گا (صحیح بخاری#2387)۔ حضرت ابوموسی ؓ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا "کبیرہ گناہوں کے بعد، اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ بندہ مرنے کے بعد اپنے رب سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس کے ذمہ قرض ہو اور وہ اس کی ادائیگی کیلئے کوئی چیز نہ چھوڑے، رواہ احمد و ابوداؤد۔ (مشکوٰة المصابیح #2922)۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ہے جب تک کہ اس کی ادائیگی نہ ہو جائے (سنن ترمذی#1078)۔ حضرت صہیب الخیر ( صہیب رومی ) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ جو شخص قرض لیتا ہے اور اس کا پختہ ارادہ ہوتا ہے کہ اسے واپس نہیں کرے گا، وہ اللہ کو چور بن کر ملے گا۔ (سُنن ابن ماجه‎#2410)۔ "حضرت عقبہ بن عامر جہنی ﷺ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو مصیبت میں مبتلا مت کرو۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا: ہم اپنے آپ کو مصیبت میں کیسے گرفتار کر سکتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: قرض کے ساتھ (مستدرك الحاكم#2216)۔" فراس نے شعبی کے واسطے سے حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی اور فرمایا: کیا یہاں پر کوئی فلاں قبیلے کا کوئی آدمی ہے؟ آپ ﷺ نے تین مرتبہ یہی جملہ دہرایا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ایک آدمی جو تم میں سے فوت ہو گیا ہے وہ اپنے ذمہ قرض کی وجہ سے جنت کے دروازے پر روک دیا گیا ہے۔ اگر تم چاہو تو اس کی طرف سے قرضہ ادا کر دو اور اگر تم چاہو تو اس کو اللہ کے عذاب کے سپرد کر دو (مستدرك الحاكم#2214)۔ 

حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا "جو شخص قرضہ لے اور اس کے دل میں اس کی ادائیگی کا ارادہ ہو ( لیکن وہ قرضہ ادا کیے بغیر ہی) مر جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف کر دے گا اور اس کے قرض خواہ کو اس کی خواہش کے مطابق راضی کر دے گا اور اگر کوئی قرضہ لے لیکن اس کے دل میں اس کی ادائیگی کا ارادہ نہ ہو اور وہ (ادا کیے بغیر) مر جائے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے قرض خواہ کو اس سے بدلہ دلوائے گا (مستدرك الحاكم#2206)۔ "حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دعا مانگی ’’اعوذ باللّٰہ من الکفر والدین۔  میں کفر اور قرض سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں‘‘ ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ کیا قرض ( کا بوجھ ) کفر کے برابر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں (مستدرك الحاكم#1950)۔ 

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا "اونٹوں میں ان کا صدقہ ہے اور بھیڑ بکریوں میں ان کا صدقہ ہے اور گائے میں ان کا صدقہ ہے اور گندم میں اس کا صدقہ ہے اور جو شخص دینار اور درہم یا سونا اور چاندی حاصل کرے جو کہ نہ قرض خواہ کو لوٹائے اور نہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرے، تو وہ ایسا خزانہ ہے جس کے ساتھ قیامت کے دن (اس کی پیٹھ ک ) داغا جائے گا (مستدرک الحاکم 1431)۔ ہر نیک عمل کی اللہ کی طرف سے جزا مقرر ہے اسی طرح مقروض سے نرمی برتنا اور وقت کشائش تک کی رعایت دینا بھی احسن عمل ہے اس پر بھی ثواب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ بیچنے، خریدنے اور قرض کے مطالبہ میں نرمی و آسانی کو پسند کرتا ہے (سنن ترمذی # 1319)۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو شخص کسی تنگ دست  ( قرض دار ) کو مہلت دے یا اس کا کچھ قرض معاف کر دے، تو اللہ اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سایہ کے نیچے جگہ دے گا جس دن اس کے سایہ کے علاؤہ کوئی اور سایہ نہ ہو گا (سنن ترمذی#1306)۔ 

آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص کا انتقال ہوا ( قبر میں) اس سے سوال ہوا، تمہارے پاس کوئی نیکی ہے؟ اس نے کہا کہ میں لوگوں سے خرید و فروخت کرتا تھا۔ ( اور جب کسی پر میرا قرض ہوتا) تو میں مالداروں کو مہلت دیا کرتا تھا اور تنگ دستوں کے قرض کو معاف کر دیا کرتا تھا۔ اسی پر اس کی بخشش ہو گئی ابومسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے یہی نبی کریم ﷺ سے سنا ہے۔ (صحیح بخاری#2391) ایک شخص نبی کریم ﷺ سے (اپنے قرض کا) تقاضا کرنے آیا اور سخت سست کہنے لگا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین غصہ ہو کر اس کی طرف بڑھے لیکن آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو کیونکہ جس کا کسی پر حق ہو تو وہ کہنے سننے کا بھی حق رکھتا ہے۔ پھر آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے قرض والے جانور کی عمر کا ایک جانور اسے دے دو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم اس سے زیادہ عمر کا جانور تو موجود ہے۔ (لیکن اس عمر کا نہی ) آپ نے فرمایا کہ اسے وہی دے دو کیونکہ سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو دوسروں کا حق پوری طرح ادا کر دے (صحیح بخاری#2306)۔