نظریہ پاکستان اور نظام پاکستان

image

دی ویووز نیٹ ورک: تاریخِ عالم میں صرف دو ریاستیں کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آئیں، ایک ریاست مدینہ دوسری ریاست پاکستان، دونوں کا معنی ایک ہی بنتا ہے( پاک رہنے کی جگہ )۔ قیامِ ریاستِ مدینہ کے صرف 13 برس بعد اسلام پوری دنیا میں اپنی روشنی پھیلانے کے قابل ہو چکا تھا اور مسلمانوں نے اس نظریاتی مملکت سے اپنے سنہری دور کا آغاز کرتے ہوۓ اس وقت کے مشرکین اور طاغوتی طاقتوں کو صرف مٹھی بھر فوج کے ساتھ شکست دی اور دنیا کو حقیقی نظام حیات دیا اور ذہنی پسماندگی سے نکال کر جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں لا کھڑا کیا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان بھی ایسے ہی لشکر کشی کے بعد معرض وجود میں آیا لیکن یہ ریاست مدینہ کے برعکس ہم زوال پزیر، پریشانیوں میں مبتلا اور مغلوب نظر کیوں آتے ہیں کہ یہاں کا ہر شہری سر سے پاؤں تک مختلف قسم کی زیادیتوں، مظالم اور جبر و استحصال کا شکار ہے اور اسے کورٹ کچہری سے لے کر ہسپتال اور زمینوں کی دیکھ بھال تک ہر ایک سطح پر طرح طرح کی زیادتی اور ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اگر مسلمان پاکستان کی قومی حکومت میں اپنے اس نظریہ حیات کو بروئے کار نہیں لائیں  گے، اور سیاست و جہاں بانی کے اصولوں کو نہیں اپنائیں گے نہ اقتصاد و معیشت کے ضابطوں کو، تب تک ہم اپنی تہذیب وثقافت کو نافذ کر سکیں گے نہ اپنی تجارت اور کاروبار کے اصولوں کو۔ ہم بین الاقوامی ضوابط میں اپنی اسلامی روح کی کار فرمائی دیکھ سکیں گے نہ داخلی معاملات میں اسکی کوئی جھلک  نظر آئے گی۔ نتیجتاً ہمارا مذہب اور دین چند رسوم و عبادات تک محدود ہو کر رہ جائے گا، جب کہ اللہ نے اس دین اسلام کو پوری انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کیلئے نازل کیا ہے، یہ چند رسوم و عبادات تک محدود ہو کر رہ جائے گا، بلکہ ہماری نجات اور ابدی سعادت کو صرف اور صرف اسی کیساتھ وابستہ کر دیا گیا ہے۔ "دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔"(آلِ عمران۔۔19) "جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرتا ہے وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔" (آلِ عمران۔۔75) 

پاکستان کے قیام کا حقیقی مقصد یہی تھا کہ ہندوستان کے مسلمان ایک طرف ہندی تہذیب اور ہندی صنم پرستی سے بچ کر اپنی اسلامی تہذیب کو اپنائیں گے اور ایک اللہ کی پرستش کریں گے، وہاں دوسری طرف پاکستان میں مکمل طور پر شریعت کو نافذ کر کے اور ہر شعبۂ زندگی میں اسلامی تعلیمات کی ترویج کر کے پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ اور اس کے حسن و جمال کی جلوہ گاہ بنائیں گے، نصف صدی ہم نے اس وعدے سے انحراف کرتے ہوئے گزار دی۔ ہم نے دیکھ لیا کہ اس نقض عہد سے ہمیں نہ صرف یہ کہ کچھ حاصل نہیں ہوا، بلکہ اسلام کی جو کچھ قدریں ہمارے پاس تھیں، وہ بھی ہم گنوا بیٹھے ہیں۔ آج ہمارے ملک میں بدامنی، قتل وغارت گری عام ہے، لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے، دہشت گردی اور کرپشن کا راج ہے، مصیبتوں کا طوفان اور مفادات کا جھکڑ ہے، بےدینی کی آندھی ہے اور بے حیائی کا سیلاب ہے جو ہمارے ڈرائنگ روموں اور خواب گاہوں تک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔

 ہم اپنی بہترین باحیا تہذیب سے بیزار اور غیروں کی حیا باختہ تہذیب کے شیدا ہیں۔ معیشت کے میدان میں بھی ہم غیروں کے دست نگر، محتاج اور کشکول گدائی لئے دربدر پھر رہے اور ہانک پکار کر رہے ہیں۔ مسلمانوں نے یہ ریاست کلمہ طیبہ اور نفاذ دین کیلئے حاصل کی تھی لیکن دین کو عبادت اور مسجد تک محدود کر کے دیگر نظام ہاۓ زندگی کیلئے یورپ کی طرف دیکھنا شروع کردیا، بقول اقبال رحمتہ اللہ علیہ!

یورپ کی غلامی پہ راضی ہوا تو

مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں

غیر اسلامی طرز زندگی گزارنے کی وجہ سے ہمارا ہر شعبہ زوال  کی طرف جا رہا ہے، نظریۂ پاکستان کو پاکستان سے نکال کر ہم سب پریشان، کمزور اور بانجھ ہو چکے ہیں۔ عوام اپنی خودی سے بے خبر ہے اور زندگی کا مقصد مادیت کو بنا بیٹھی ہے۔ روحانی تربیت کی شدید قلت ہے جسکی وجہ سے تکالیف ہم پر چڑھ دوڑی ہیں اور ہم سکون سے شدید محروم ہیں۔ مغرب کے رسوم اور نظام کو فیشن، روشن خیالی اور ترقی سمجھا جاتا ہے، بقول علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ!

ہر شام سورج ہمیں یہ درس دیتا ہے 

کہ مغرب کیطرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے

زندگی کے ہر معاملے میں اسلام اپنے مخصوص عقائد ونظریات کی روشنی میں انکی صورت گری کرتا اور مخصوص ہدایات دیتا ہے۔ اگر ہم بھی اپنی داستان کو دنیا کی داستانوں میں لازوال دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں بھی دین کے قانون کو اپنی ریاست اور عوام پر نافذ کرنا ہوگا اور حضورﷺ سے وفا کرنی ہوگی، کیونکہ! 

کی محمد ﷺ سے وفا تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

صرف حضورﷺ سے وفا کرنے کی دیر ہے اس ریاست میں اور دنیا میں اسلام کا عروج دوبارہ نظر آۓ گا، حضورﷺ سے وفا اصل میں حضورﷺ کے مشن اور مقصد سے وفاء ہے۔ نظریہ پاکستان کو نظام پاکستان بنانے سے ہی ہم چودہ سو سال پہلے والی ہمت، طاقت، حکومت، عروج اور عزت حاصل کر سکیں گے۔ انشاء اللہ