اسموگ دورِ حاضر کا سنگین مسئلہ

image

دی ویووز نیٹ ورک: یوں تو وطنِ عزیز کو لاتعداد مسائل درپیش ہیں مگر اسموگ اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ عوام اس مسئلے کو اس طرح سنجیدہ نہیں لے رہی جس نوعیت کا یہ مسئلہ ہے۔ درحقیقت اسموگ صرف مسئلہ ہی نہیں بلکہ مسائل کی ماں ہے، اسموگ 2 الفاظ اسموک یعنی دھواں اور فوگ یعنی دھند کا کمبینیشن ہے، اسموگ بنیادی طور پر ایسی فضائی آلودگی کو کہا جاتا ہے جو انسانی آنکھ کی حد نظر کو متاثر کرے، اسموگ کو زمینی اوزون بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی بھاری اور سرمئی دھند کی تہہ کی مانند ہوتی ہے جو ہوا میں جم سا جاتی ہے۔ اس مہلک دھند میں موجود کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ اور میتھین جیسے مختلف زہریلے کیمیائی مادے بھی شامل ہوتے ہیں۔ فضا میں موجود ہوائی آلودگی اور بخارات کا سورج کی روشنی میں دھند کے ساتھ ملنا بھی اسموگ کی وجہ بنتا ہے۔ اس کے علاوہ بارشوں میں کمی، فصلوں کو جلائے جانے، کارخانوں اور گاڑیوں کے دھوئیں اور درختوں کا بے تحاشا کاٹے جانا اور قدرتی ماحول میں بگاڑ پیدا کرنا اسموگ کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ افراد فضائی آلودگی کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ جولائی 1943ء کو امریکا کے شہر لاس اینجلس کے شہریوں کو اپنے وقت کی سب سے بڑی اسموگ کا سامنا کرنا پڑا۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران شدید دھند کی وجہ سے لاس اینجلس کے شہریوں کو غلط فہمی ہو گئی تھی کہ جاپان نے ان پر کیمیائی حملہ کر دیا ہے، دسمبر 1952ء میں لندن میں فضائی آلودگی کی لہر کو’گریٹ اسموگ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، لندن میں آلودہ دھند کی وجہ سے 12 ہزار سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ 1987ء میں 1100 سے زائد نوجوان زہریلی اسموگ کی وجہ سے سانس نہ لے سکے اور موت کا شکار ہوگئے۔ اسموگ میں بنیادی طور پر ایک پرٹیکولیٹ مادہ موجود ہوتا ہے جو کہ پرٹیکولیٹ مادہ 2.5 کہلاتا ہے اور یہ پی ایم 2.5 ایک انسانی بال سے تقریباً 4 گنا باریک ہوتا ہے جو انسانی پھیپھڑوں میں باآسانی داخل ہو کر پھیپھڑوں کی مختلف بیماریوں کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کے کینسر تک کا باعث بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اسموگ کے باعث کھانسی، الرجی، آنکھوں، سینے، ناک اور گلے کی جلن، دمہ کا بڑھ جانا، پیدائشی نقائص، پیدائش کا کم وزن اور رکٹس (سوکھے کی بیماری) پیدا ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ 

ہر کوئی محض چند عادات اپنا کر اسموگ کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے، جیسا کہ گیس سے چلنے والے آلات کے بجائے بجلی کے آلات استعمال کیے جائیں، دھوئیں والی گاڑی ٹھیک کرانا، وقتاً فوقتاً گاڑی کا تیل بدلنا اور ٹائروں کی سطح متوازن رکھنا اسموگ سے بچاؤ کیلئے ضروری ہے، گھر سے باہر نکلنے سے پہلے ماسک کا استعمال کریں۔ آنکھوں کیلئے چشمے کا استعمال ضرور کریں کیونکہ اسموگ میں موجود گیسوں کا مجموعہ آنکھوں کے مختلف امراض میں مبتلا کر سکتا ہے۔ کانٹیکٹ لینس کی بجائے نظر کی عینک کو ترجیح دیں۔ تمباکو نوشی ترک کریں یا کم کر دیں، زیادہ سے زیادہ پانی پئیں اور گرم چائے کا استعمال کریں۔ باہر سے گھر آنے کے بعد اپنے ہاتھ، چہرے اور جسم کے کھلے حصوں کو صابن سے دھوئیں، گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں، کھڑکیوں اور دروازوں کے کھلے حصوں پر گیلا کپڑا یا تولیہ رکھیں۔ گاڑی چلاتے ہوئے گاڑی کی رفتار دھیمی رکھیں اور حدِ نگاہ کم ہونے پر فوگ لائٹس کا استعمال کریں۔ بازاروں، گلیوں یا سٹرکوں پر فالتو پھرنے سے گریز کریں۔ گھر کی صفائی جھاڑو کے بجائے گیلے کپڑے سے کریں۔ زیادہ ٹھنڈے مشروبات سے اجتناب کریں۔ گھروں کے باہر پانی کا چھڑکاؤ کرتے رہیں۔

اس وقت سب سے خطرناک صورتحال صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کی ہے جہاں پیر کی صبح 6 بجے ایئر کوالٹی انڈیکس 338 ریکارڈ کیا گیا (یہ انڈیکس ہر تھوڑی دیر بعد تبدیل ہوتا ہے) اور آئی کیو ائیر کے مطابق لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر تھا۔ حکومت پنجاب نے ہفتہ اور اتوار کو شہر میں سمارٹ لاک ڈاؤن لگایا لیکن بظاہر اس کا کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیا۔ اس صورت حال کے پیشِ نظر نگران پنجاب حکومت نے صوبے کے ان اضلاع جہاں اسموگ زیادہ ہے وہاں چہرے پر ماسک پہننے کو 20 سے 26 نومبر تک لازمی قرار دیا ہے اور اس حوالے سے ایک نوٹفیکیشن بھی جاری کیا ہے۔ پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی نے بھی اسموگ کے تدارک کیلئے عملے میں برقی موٹر سائیکلیں تقسیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عملے میں کل 100 برقی موٹر سائیکلیں تقسیم کی جائیں گی، ان کے مطابق پی ایچ اے پہلا حکومتی ادارہ ہے جس نے فضائی آلودگی پر قابو پانے کیلئے یہ قدم اٹھایا ہے۔ ان موٹر سائیکلوں سے نہ صرف ایندھن کے اخراجات میں کمی آئے گی بلکہ ماحول دوست اقدامات کو فروغ ملے گا۔

احتیاطی تدابیر کو اپنا کر اسموگ کے مضر اثرات سے ایک حد تک بچا جا سکتا ہے مگر اس کیلئے کوئی مستقل حل ڈھونڈنا چاہیئے، بدقسمتی سے آج تک کسی حکومت نے اس پر قابلِ ذکر کام نہیں کیا مگر موجودہ نگران حکومت اس پر کافی اقدامات کر رہی ہے۔ پنجاب حکومت نے اس بار مصنوعی بارش برسانے کا منصوبہ بنایا ہے مگر تاحال اس پر کسی وجہ سے عملدرآمد نہیں کیا جا سکا۔ انڈیا، دبئی یا چین میں تواتر کے ساتھ مصنوعی بارش برسائی جاتی ہے کیونکہ یہ اس مسئلے کا ایک اچھا حل ہے۔ اس کے علاوہ مارکیٹ میں مختلف ائیر پیوری فائرز بھی دستیاب ہیں جو ایک کمرے کیلئے بھی استعمال ہو سکتے ہیں جبکہ کچھ بڑے حجم کے ہیں جو ایک ہال کی فضا کو قدرے بہتر بنا سکتے ہیں، کمروں کے اندر ایسے پودے رکھے جائیں جو ایئر پیوری فایئرز کا کام کرتے ہیں جن میں سنیک پلانٹ، سپائڈر پلانٹ، پیس للی،ایلو ویرا، انگلش آئی وی، ربر پلانت اور بیمبو وغیرہ شامل ہیں۔ بدلتے موسمی اثرات کے بیشِ نظر ماحولیاتی نظام کو شفاف بنانے کیلئے اقدامات ہر حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے، اس پر بجٹ کا ایک خاص حصہ خرچ کرنا چاہیئے تاکہ عوام محفوظ اور صحت مند زندگی گزار سکیں۔