برین ڈرین

image

دی ویووز نیٹ ورک: کنفیوشس چینی قوم کا ایک بہت بڑا فلاسفر، استاد اور مصلح تھا جس کی تعلیمات اور نصیحتوں کا آج کے ترقی یافتہ چین میں بہت بڑا کردار ہے۔ ایک دن اس کے شاگرد نے اس سے حکومت کے بارے میں پوچھا تو کنفیوشس نے جواب دیا کہ اچھی حکومت کیلئے تین بنیادی ضروریات ہیں 1۔ خوراک کی وافر مقدار 2۔ فوجی ہتھیاروں کی وافر مقدار اور 3۔ لوگوں کا اپنے حکمران کے اوپر اعتماد۔ شاگرد نے پھر پوچھا کہ اگر ان تینوں میں سے کوئی ایک چیز چھوڑنی پڑے تو کسی چیز کو ہم ختم کریں گے اس نے جواب دیا کہ "فوجی ہتھیار" دوبارہ شاگرد نے پوچھا کہ اگر ایک اور چیز چھوڑنی پڑے اور ہمیں صرف ایک ہی چیز کے ساتھ رہنا پڑے تو ہمیں خوراک اور اعتماد میں سے کس چیز کو چھوڑیں گے تو استاد نے جواب دیا کہ خوراک کو چھوڑ دیں اور اعتماد کو بحال رکھیں۔ اگر لوگوں کا اپنے حکمران یا اپنی ریاست کے اوپر اعتماد ختم ہو جائے تو وہ ریاست کبھی بھی نہیں ٹک سکتی۔ اس گفتگو کا آخری جواب مملکت خداداد پاکستان کے آج کے حالات کی عکاسی کرتا ہے کہ جب گورنمنٹ یا ریاست کے اوپر لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے تو وہ ریاست کبھی بھی نہیں ٹک سکتی۔

 اس کی جھلک ہمیں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے پچھلے کچھ عرصے میں کیے گئے سروے سے ملتی ہے جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ 37 فیصد پاکستانی باہر ملک جانا چاہتے ہیں اگر وہ جا سکیں تو۔ اس سے مایوس کن بات ایک اور ہے کہ 15 سے 24 سال کے 62 فیصد نوجوان جو کہ حقیقت میں ایک ملک کو چلانے والے لوگ ہیں پاکستان کو چھوڑنا چاہتے ہیں، پچھلے کچھ عرصہ میں پاکستان سے جانے والے پاکستان کو چھوڑنے والے افراد کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، حالیہ عرصے میں ملک کو چھوڑنے والے لوگوں کی تعداد 2021ء اور 2020ء میں چھوڑنے والے لوگوں سے تین گنا زیادہ ہے، تقریبا آٹھ لاکھ کے قریب افراد اس ملک کو چھوڑ چکے ہیں اور چھوڑ رہے ہیں۔ گو کہ سروے میں ملک چھوڑنے کی وجوہات معاشی بتائی جا رہی ہیں لیکن میرے خیال کے مطابق یہ دو وجوہات ان کے ملک چھوڑنے کا ذریعہ بن رہی ہے اور وہ جان کی برابری اور روزگار کے مواقع کی برابری ہے۔ وہ لوگ جو طاقت کے ایوانوں میں ہیں، بدقسمتی سے وہ عام پاکستانی کی خواہشات، ان کی امیدیں اور ان کی مایوسی سے بالکل بے خبر ہے۔ وہ اگر قوانین بھی پاس کرتے ہیں تو ایسے پاس کرتے ہیں جو کہ بقول سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کے ریاست کو "ون پرسنٹ ریپبلک" بنا رہے ہیں۔ 

اگرچہ دکھایا ایسے جاتا ہے کہ یہ قوانین عام عوام کے مفاد میں ہیں لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا، کیونکہ ان قوانین پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہوتا جس سے معاشرے کے اندر عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ ریاست کے اوپر لوگوں کے عدم اعتماد کی ایک بہت بڑی مثال ہمیں پچھلے کچھ عرصہ میں ملی کہ جب پچھلے سال سیلاب کے دنوں میں اس وقت کی حکومت نے یہ اعلان کیا کہ متاثرہ علاقوں کی بحالی اور لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے درخواست ہے کہ حکومت کی مدد کی جائے تو عوام کی طرف سے یہ سوال ابھر کر سامنے آئے کہ کیا ہم اعتماد کر لیں کہ ہمارے دئیے گئے پیسے حقدار لوگوں کی جیب تک پہنچ پائیں گے؟ کیا ہمیں ہم یہ اعتماد کر لیں اپنی حکومت کے اوپر کہ ہماری حکومت ہمارے ان پیسوں میں کسی قسم کا کوئی غبن نہیں کرے گی؟ اور لوگوں کہ یہ سوال حق بجانب بھی تھے کہ ایک طرف تو ہمارا ملک غربت اور تباہی کے پنجے میں کسا ہوا تھا لیکن دوسری طرف اس وقت کی حکومت جس کے پاس اپنا کوئی لیگل پورٹ فولیو نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ 80 ممبران کی کیبنٹ کو لے کر اقتدار کے ایوان میں بیٹھی لطف اندوز ہو رہی تھی۔

اس مایوس کن صورتحال میں چینی فلاسفر و چینی استاد ہمیں کچھ سبق سکھاتا ہے اور وہ سبق انسان کیلئے بھی ہے اور حکومت کیلئے بھی ہے اور وہ سبق یہ ہیں کہ کیا ہے جو انسان کو اچھا بناتی ہے اور کیا ہے جو حکومت کو اچھا بناتی ہے۔ جہاں تک دوسری سوال کی بات ہے تو کنفیوشس اس بارے میں یہ کہتا ہے کہ لیڈر کو اپنے اندر کچھ خصلتیں پیدا کرنی پڑیں گی، اگر وہ اپنے لوگوں کی وفاداری اور سپورٹ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اچھی حکومت کو اپنے اور لوگوں کے درمیان اعتماد کی فضا بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر حکمران کا اپنا کردار ٹھیک ہے تو حکومت مؤثر بھی ہوگی اور حکومت کی طرف سے جاری کردہ احکامات نافذ العمل بھی ہوں گے لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو اس کی طرف سے جاری کیے گئے احکامات اور آرڈرز کی کوئی وقعت نہیں ہوگی۔ اس کے مطابق حکومت کو اپنے لوگوں کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے مؤثر اقدامات لینے چاہیئیں۔ وہ کہتا ہے کہ اگر حکومت ایسا کرے گی تو ہر فرد اپنی فیملی کی ضروریات اچھے طریقے سے پوری کر سکے گا اور اس طرح وہ وہ فرد اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو بھی احسن طریقے سے سرانجام دے سکے گا۔

چینی قوم نے اپنے اس عظیم استاد اور فلاسفر کی تعلیمات کو اپنا مشعل راہ بنایا اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے ایک صدی سے بھی کم عرصے میں معاشی طور پر بھی اور باقی تمام میدانوں میں بھی وہ ایک ورلڈ پاور کی صورت میں سامنے آیا ہے اور وہ یہ تھا کہ "سب کی ترقی" اور  "سب کی خوشحالی".  اگر چائنا اتنے کم عرصے میں اتنی بڑی ترقی کر سکتا ہے تو ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم بھی کچھ سبق سیکھیں۔ ہمیں بھی سننا پڑے گا اور یہ دیکھنا پڑے گا کہ جب وہ کہتا ہے کہ "اگر اپ اپنے مقاصد تک نہیں پہنچ پا رہے تو مقاصد نہ بدلیں بلکہ اس مقاصد کی طرف جانے والے قدم بدلیں" ہمارے حکمرانوں کو آج اس قسم کے اقدامات لینے کی ضرورت ہے جو لوگوں کی خواہشات اور ضروریات کے مطابق ہوں۔ ہم نے پچھلے کچھ عرصے میں آٹھ لاکھ افراد کی صورت میں اپنے اس عظیم ملک کی کریم کھودی ہے۔ اگر حکومتی ایوانوں نے اس پر آنکھ نہ کھولی اور ملک کو سیاسی، معاشی اور معاشرتی استحکام کی طرف لے کے نہ گئے تو ہمارا ملک اس سے بھی بدترین صورتحال کا سامنا کر سکتا ہے۔