انسان کو بڑھاپے سے بچانے والا حیران کن نظام

image

اس لامحدود کائنات میں ہر دکھائی دینے والی شے ننھے منے ذرات، ایٹموں سے بنی ہے۔ سائنس دان جدید آلات اور عمیق تحقیق کے ذریعے عمل ِبڑھاپا کے اسرار و رموز ضرور جان رہے ہیں۔

نیویارک: (ویب ڈیسک) آج سے تین ارب ستر کروڑ سال پہلے مختلف کیمیائی مادوں کے ملاپ سے زمین پہ ایسے ایٹموں نے جنم لیا جو ازخود حرکت کر سکتے تھے۔ یہی خصوصی ایٹم ’’زندگی‘‘ کو وجود میں لائے۔ ازخود حرکت کے قابل ایٹموں کو اب خلیے (Cells) کہا جاتا ہے۔ کروڑوں برسوں کے عرصے میں خلیوں کے مجموعوں نے چھوٹے بڑے ہزارہا قسم کے جاندار تخلیق کر ڈالے۔ ویسے ایک خلیے والے یعنی یک خلوی جاندار(Unicellular organism) آج بھی کرہ ارض پہ موجود ہیں جیسے جراثیم (بیکٹیریا) اور آرکیا (Archaea)۔ زندہ وجود کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ وہ پلتا بڑھتا اور پھر بوڑھا ہو کر مر جاتا ہے۔ سائنس نے بے پناہ ترقی کر لی ہے مگر وہ اب تک بڑھاپے کے عمل کو صحیح طرح نہیں سمجھ سکی۔

مثال کے طور پہ پچھلے دنوں انکشاف ہوا کہ ہمارے جسم میں انتہائی چھوٹی سطح پر انجام پانے والا ایک قدرتی عمل انسانوں کو جلد بوڑھا ہونے سے کیسے بچاتا ہے۔ گویا اس قدرتی عمل کے باعث انسان مزید کئی سال زندگی کی رعنائیوں اور خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کے قابل ہو گیا۔ اگر یہ عمل وجود میں نہ آتا، تو انسان بہت جلد اللہ کو پیارا ہو جاتا۔ جدید طبی تحقیق کی رو سے ایک بالغ مرد تقریباً 36 ٹریلین (360 کھرب)خلیوں کا مجموعہ ہے۔ جبکہ ایک بالغ خاتون 28 ٹریلین (280کھرب )خلیوں سے وجود میں آتی ہے۔ ان انسانی خلیوں کی چار سو سے زائد اقسام ہیں جو مختلف ذمے داریاں انجام دیتی ہیں۔ یہ سبھی اقسام ایک دوسرے سے رابطہ رکھتی ہیں اور اسی قدرتی طور پہ مربوط و حیران کن نیٹ ورک کی بدولت انسان اپنی روزمرہ سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔ ہمارے جسم میں خون کے خلیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے، یعنی 84 فیصد۔ اس کے بعد پلٹلیٹ (4.9  فیصد) ، ہڈیوں کے گودے کے خلیوں (2.5 فیصد)، خون کی نالیوں میں استر بچھانے والے خلیوں یعنی endothelial cells (2.1فیصد) اور خون کے سفید خلیوں Lymphocytes (1.5 فیصد) کا نمبر آتا ہے۔

حیرت انگیز اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان کے کھربوں خلیوں میں سے ہر خلیہ اپنی جگہ ایک فرد یا اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ کھاتا پیتا، اپنے کام کاج کرتا ، بچے پیدا کرتا اور رفتہ رفتہ بوڑھا ہو کر مر جاتا ہے۔ اس کی لاش پھر نئے خلیے پیدا کرنے میں کام آتی ہے۔ انسانی جلد انہی مردہ خلیوں کی لاشوں سے بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے، جلد پہ پڑنے والا زخم کا نشان آہستہ آہستہ غائب ہو جاتا ہے۔ ہر خلیہ مختلف حصے رکھتا ہے جو اسے اپنی ذمے داریاں نبھانے میں مدد دیتے ہیں۔ مثلاً اس کے مرکزے یا نیوکلس میں تمام جینیاتی معلومات محفوظ ہوتی ہے۔ ایک حصہ مائٹوکونڈریا، (mitochondria) کھائی گئی غذا سے وہ کیمیائی توانائی بناتا ہے جسے کام میں لا کر خلیہ اپنی ذمے داریاں انجام دیتا ہے۔ رائبوسوم (Ribosome)نامی حصہ پروٹین بناتا ہے جو خلیے اور انسان کی بقا کے لیے ضروری مادے ہیں۔ سینٹراولیس (centrioles) نامی حصہ خلیے کو تقسیم ہونے میں مدد دیتا ہے۔ اسی عمل سے مزید خلیے جنم لیتے ہیں۔ خلیے کا ایک اہم حصہ لایسوسم‘‘ (Lysosome) کہلاتا ہے۔ لایسوسم کی ذمے داری یہ ہے کہ جب خلیے کا کوئی حصہ خراب ہو جائے یا کام کے قابل نہ رہے تو اسے گلا سڑا دے۔ لایسوسم میں تیزابی مادے موجود ہوتے ہیں جو خلیے کے کسی بھی حصے کو گلا دیتے ہیں۔ لایسوسم حملہ آور وائرس یا جراثیم کو مارنے میں بھی کام آتے ہیں۔

اگر خلیہ کسی مرض، ضرب یا قدرتی بڑھاپے سے کام کے قابل نہیں رہے تو لایسوسم ایک ایسا قدرتی عمل جنم دینے میں مددگار بنتے ہیں جو خلیے کو مار ڈالتا ہے۔ یہ عمل’’ پروگرامڈ خلیہ موت‘‘ (programmed cell death) کہلاتا ہے۔  خلیے کا ایک اہم حصہ لایسوسم (Lysosome) کہلاتا ہے۔ لایسوسم کی ذمے داری یہ ہے کہ جب خلیے کا کوئی حصہ خراب ہو جائے یا کام کے قابل نہ رہے تو اسے گلا سڑا دے۔ لایسوسم میں تیزابی مادے موجود ہوتے ہیں جو خلیے کے کسی بھی حصے کو گلا دیتے ہیں۔ لایسوسم حملہ آور وائرس یا جراثیم کو مارنے میں بھی کام آتے ہیں۔ اگر خلیہ کسی مرض، ضرب یا قدرتی بڑھاپے سے کام کے قابل نہیں رہے تو لایسوسم ایک ایسا قدرتی عمل جنم دینے میں مددگار بنتے ہیں جو خلیے کو مار ڈالتا ہے۔ یہ عمل’’ پروگرامڈ خلیہ موت‘‘ (programmed cell death) کہلاتا ہے۔

لایسوسم گویا خلیے کے خاکروب ہیں۔ وہ خلیے کی سلطنت میں گھومتے پھرتے ہیں۔ جہاں کوڑا پائیں، اس کو گلا سڑا دیتے ہیں۔ یوں وہ اس چھوٹی سی دنیا یا کارخانہ ِقدرت کو صاف ستھرا اور کام کرنے کے قابل رکھتے ہیں۔ جب سائنس دانوں نے ان کا خردبینی مطالعہ کیا تو ان کے ذہن میں اس سوال نے جنم لیا: ’’جب خود لایسوسم کسی وجہ سے ناکارہ ہو جائیں تو کیا ہوتا ہے؟‘‘ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے جاپانی سائنس دانوں کی ایک ٹیم تحقیق و تجربات میں مصروف ہوگئی۔ جاپانی سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ جب لایسوسم خراب ہو جائیں تو ان کے تیزابی مادے اندر سے نکل کر پورے خلیے میں پھیل جاتے ہیں۔ وہ پھر اس کے صحت مند حصوں کو نقصان پہنچا کر خلیے کو بیمار کر ڈالتے ہیں۔ یوں وہ جلد غیرقدرتی موت پا لیتا ہے۔ اگر یہ سلسلہ دیگر خلیوں تک دراز ہو جائے تو تبھی انسان کینسر جیسے کئی موذی امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ امراض بڑھاپا آنے کی رفتار تیز کر دیتے ہیں۔ گویا لایسوسم کی خرابی کو بڑھاپے کی قبل از وقت آمد کا اعلان سمجھنا چاہیے۔